دنیاگلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے دور میں زبان پیغام کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ترقی پسند قوموں نے اپنی منازل طے کرنے کے لیے مشترکہ زبان کو فوقیت دی یہی وجہ ہے کہ محض انگریزی زبان ہی دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈھائی ہزار سال پُرانی زبان ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ اُردو دنیا بھر میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق تین ملین بولنے والے افراد یورپی کمیونٹی میں ہیں اور ان میں نصف برطانیہ میں آباد ہیں۔ اس لئے برطانیہ میں اُردو قومی نصاب میں بحیثیت اختیاری مضمون شامل ہے اورجب سے برطانیہ یورپ کی مشترکہ منڈی میں شامل ہوا ہے وہاں مختلف سکولوں میں اُردو کی تدریس میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی مشترکہ منڈی کی شرائط کے تحت منڈی میں شریک ہر ملک کے لئے اپنے تمام بچوں کو ان کی مادری زبان پڑھا نا اور اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرنا لازم قراردیا گیا ہے ملکہ وکٹوریہ اُردو کی اتنی شائق تھی کہ اس نے اُردو سیکھنی شروع کردی اور اپنی ڈائری میں اندراج کبھی کبھی اُردو میں کیا کرتی تھی۔ اٹلی میں اُردو زبان و ادب کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا ۔ علوم شرقیہ کی تعلیم کے لئے اورینٹل یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ نیپلز یورپ کا قدیم ترین ادارہ ہے ۔اطالوی زبان میں لکھی ہوئی کتاب’’اُردو کی گرامر‘‘1892ء میں روم سے شائع ہوئی ۔ علامہ اقبال کے دورہ اطالیہ کی یادگار دو نظمیں بہت مشہور ہیں ایک’’مسولینی ‘‘اور دوسری ’’صقلیہ ‘‘1933 ء میں روم کے اندر ’’مشرق وسطیٰ و بعید ‘‘کا اطالوی ادارہ قائم ہوا ۔یہاں بھی اُردو زبان و ادب کی تدریس ہوتی ہے ۔ 1990 میں ناروے کی آبادی 41 لاکھ تھی ملک کی زبان نارویجن ہے۔ ناروے میں اُردو پاکستانیوں کے ساتھ پہنچی۔ ناروے کے دارلخلافہ اوسلو سے پمفلٹ نما اُردو اخبار ’’صدائے پاکستان ‘‘’’اخبار پاکستان ‘‘نوائے پاک‘‘ندائے پاکستان ‘‘’’جہاد‘‘ اور’’آواز‘‘چھپتے ہیں ۔ایک ہفت روزہ اخبار ناروے کے ایک بڑ ے شہر ستوانگر سے شائع ہوا۔1979ء میں ایک پندرہ روزہ ’’سفیر ‘‘شائع ہوا اُردو ماہوار رسائل بھی چھپتے ہیں جون 1978ء میں پردیس ماہنامے کا اجراء ہوا۔ جنوری 1980 میں ماہنامہ ’’انٹرنیشنلسٹ‘‘نکلا رسالہ ’’بازگشت ‘‘ایشین کلچرل کونسل شائع کرتی ہے ۔سکاٹ لینڈ کے سکولوں میں اُردوزبان کی تدریس کو 1994ء میں قانونی حیثیت دے دی گئی جس کے بعد اُردو اس ملک میں باقائدگی سے پڑھائی جانے لگی ۔اس اجازت سے پہلے متعلقہ حلقوں میں سروے کرایا گیا تھا ۔جس کے مطابق 15 فیصد افراد نے اُردو کے حق میں اور صرف 2فیصد نے ہندی کے حق میں رائے دی تھی۔ پیرس(فرانس) یونیورسٹی میں ’’مدرسہ السنہ شرقیہ‘‘1669 میں قائم ہوا۔وہاں ساٹھ سے زیادہ زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اُردو ادب سے بھی فرانسیسی زبان میں بہت تراجم ہوئے ان میں اقبال اور فیض کا کلام بھی شامل ہے ۔اقبال کی ’’بال جبریل ‘‘کے علاوہ بہت سی نظموں کا فرانسیسی میں ترجمہ ہواہے۔مغربی جرمنی میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباًستر ہزار ہے ۔بھارتیوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے ۔اُردو لکھنے اور بولنے والوں کی تعداد کم بیش ایک لاکھ ہے علامہ اقبال کیمبرج (برطانیہ ) سے گرمیوں کی تعطیلات گزارنے جرمنی آئے اور میونح یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر گئے۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران مٹھی بھر ہندوستانی نوجوان برلن میں جمع ہوچکے تھے جن کی مدد سے برلن یونیورسٹی میں اُردو پڑھانے کا کام لیا گیا۔1960ء سے برلن کے علاوہ ہیمبرگ اور ہائیڈل برگ یونیورسٹیوں میں بھی اُردو تدریس کا انتظام ہے۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی سائوتھ ایشیاء انسٹی ٹیوٹ میں اُردو کی کل وقتی لیکچر شپ ایک لمبے عرصہ سے قائم ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ میں حکومت پاکستان نے ’’اقبال چئیر ‘‘قائم کر رکھی ہے۔ اُردو زبان کی پہلی گرائمر لکھنے کا شرف ایک جرمن بنجمن شلز کو حاصل ہوا۔ڈنمارک کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے۔دارلخلافہ کوپن ہیگن ہے۔زبان ڈینش (ولندیزی) ہے۔ جان جوتسو کیٹلر نے اُردو صرف ونحو اور لغت لکھی جو ابھی تک ہیگ کے کتب خانے میں محفوظ ہے ۔ برصغیر میں سب سے پہلے اہلِ پرتگال آئے ۔1498ء میں دھلی کے اندر سکندر لودھی کے دورِ حکومت میں ایک پرتگالی سیاح واسکوڈے گاما ہندوستان کے مغربی ساحل کالی کٹ میں آیا۔ رفتہ رفتہ پرتگالی تاجروں نے یہاں ڈیرے ڈال لیے اور ساتھ ہی پرتگالی زبان اور اُردو کا ملاپ شروع ہوا۔آج پانچ صدیوں کے بعد بھی پرتگالی زبان کے الفاظ مثلاً الماری، بالٹی، صابن، تولیہ اچار‘ بسکٹ‘ پستول‘ تمباکو‘ فیتہ‘ فالتو تمباکو‘ چابی اور صوفہ وغیرہ مستعمل ہیں۔ پرتگال کے مستشرق یول نے اپنی ایک کتاب میں بائیس فرہنگوں کی فہرست دی ہے جس میں پرتگیزی ،فرانسیسی ،اور انگریزی زبان کی فرہنگیں ہیں ۔ان کے ساتھ اُردوالفاظ کی فرہنگیں ضمیمے کے طور پر شامل ہیں ۔اس فہرست کو دیکھ کے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو کے بارے میں دنیا کی کتنی زبانوں میں مواد موجود ہے۔پرتگالی ایسٹ انڈیا کمپنی کو جو منشور شاہی عطا ہوا اسکی رو سے برصغیر میں آنیوالے پادریوں کیلئے بارہ مہینے کے اندر اُردو زبان سیکھنا لازمی تھا۔ قطب شمالی کے اندرشمال مغرب میں ترقی یافتہ ملک سویڈن واقع ہے۔جہاں تقریباً 4 ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ھوم میں سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیںجن کی چند دکانیں ہیں تین ہوٹل اور ایک مسجد ہے۔ جہاں باقائدہ اُردو میں اسلامی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔سویڈن میں تقریباً نوے مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں ایک اُردو بھی ہے ۔پاکستانی سفارت خانے کے تحت یہاں کوئی سکول وغیرہ قائم نہیں ۔ 1991 ء تک ہالینڈ میں پارہ ہزار پاکستانی رہتے تھے۔ لائے دن یونیورسٹی اور ایمسٹرڈم یونیورسٹی میں اُردو ایک اضافی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ایمسٹر ڈم میں اُردو کا ایک ’’سیلف سٹڈی کورس ‘‘ہے جو صر ف وہی افراد استعمال کرتے ہیں جن کو کسی تحقیق یا منصوبہ پر کام کرنے کیلئے پاکستان جانا ہو۔ 1971ء میں پریم چند اور منٹو کے افسانوں کا پولش میں ترجمہ ہوا کرشن چندر کی تصانیف کے بارے میں بھی لکھا گیا وار سا یونیورسٹی میں اُردو بطور اختیاری مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ مشرقی افریقہ کینیا کا دارلخلافہ نیروبی ہے۔یہ ملک 12دسمبر 1963ء تک انگریزوں کا غلام رہا۔ جب تک یہاں برطانوی حکومت رہی کینیا کے سکولوں میں اُردو پڑھائی جاتی رہی لیکن آہستہ آہستہ دوسری ایشیائی زبانوں کی طرح اُردو کو بھی سکولوں سے خارج کردیا گیا۔1941ء سے قبل اُردو نیروبی میں پہنچ گئی تھی۔نیروبی ریڈیو سے اُردو پروگرام نشر ہوتا ہے اور ماہانہ مشاعرہ بھی ریڈیو سے سامعین کو سنایا جاتا ہے۔جوہنس برگ کی(جنوبی افریقہ) آبادی تقریباًتین کروڑ ہے۔مسلمان 5 لاکھ ہیں ۔اُردو بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔ہر مسجد کے ساتھ ایک مکتب یا مدرسہ موجود ہے جہاں دینی تعلیم اُردو میں دی جاتی ہے۔