جب کسی صاحب اقتدار یا طاقتور شخصیت کی پگڑی اچھل رہی ہو اور اس کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہو تو ڈاکٹر عرفان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور اس خوشی کے دوران بعض اوقات وہ اس طرح کے جملے کہہ جاتا ہے جس سے معاشرے کے بہت سے مسائل کا حل بھی نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اپنے ایک ڈاکٹر دوست کی کسی کے ہاں گاؤں میں کی جانے والی دعوت کے حوالے سے بتانے لگا کہ اس گاؤں میں یہ رسم تھی کہ مہمان سے قبل اور اس کے ساتھ کوئی کھانا نہیں کھائے گا مہمان کی آؤ بھگت تو خوب کی گئی مگر اس کو تناول کے لئے جو مرغ پیش کیا گیا وہ اچھی طرح نہیں پک سکا اور مہمان کو بادل ناخواستہ کچا گوشت ہی نوش کرنا پڑا کیونکہ میزبان ساتھ میں کھانا کھاتا تو علم میں آتا کہ میزبانی کے فرائض کس نہج سے ادا کئے جا رہے ہیں اس لئے جب تک ملک میں اداروں کے ساتھ وقت نہیں گزارا جاتا تواس وقت تک یہ کہنا ناممکن ہے کہ مرغ کچا ہی رہ گیا یا پک چکا ہے کئی عشروں سے پولیس کا کلچر بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن پولیس کا بدمعاش سپاہی ابھی تک بدمعاش ہی ہے بدمعاش سپاہی کو کون کون سی سہولیات دستیاب ہیں اور کن کن نامساعد حالات سے وہ گزر رہا ہے اس بارے پولیس کے ایک افسر لیاقت علی ملک نے اپنی ایک تحریر کے ذریعے خوب روشنی ڈالی ہے جو کہتا ہے کہ سپاہی علی احمد کی بدمعاشی اس وقت شروع ہوئی، جب وہ دسمبر کی یخ بستہ سردی میں، جہاں دھند کی بدولت حد نگاہ صفر تھی بغیر ناشتہ کئے، نیلی جیکٹ پہنے، جو کل ہی لنڈے بازار سے ساڑھے چھ سو روپے میں اس نے خریدی تھی۔ کیونکہ سرکار اس کی بدمعاشی کی وجہ سے پچھلے پانچ سال سے اس کو سرکاری جیکٹ نہ دے سکی، پیدل بس سٹاپ جو اس کے گھر سے صرف چار سو ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہے کی جانب یہ سوچتا ہوا روانہ ہو جاتا ہے کہ اگرچھوٹے بیٹے کے لئے دوائی نہ خریدنی ہوتی تو اس سردی سے بچنے کے لئے ساٹھ روپے کے اونی دستانے اور اسی روپے کی ٹوپی بھی خرید لینی چاہئے تھی۔ پھر وہ سرکو جھٹکتا ہے کہ چلو جنوری میں تنخواہ ملے گی تو لے لیں گے۔ تیس دنوں کی ہی بات ہے اور اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے۔
بس سٹاپ پر کھڑا یہ اس سوچ میں پریشان اور دل ہی دل میں دعا کر رہا ہے کہ اللہ کرے وقت پر ڈیوٹی پر پہنچ جائے، نہیں تو محرر کی گالیاں، SHO کی بدزبانی، ڈی ایس پی کی رپورٹ اور ایس پی کی طرف سے شوکاز نوٹس لازمی مل جائے گا۔ اور پھرایک نئی ذلالت شروع ہو جائے گی۔ پھر بھی اگر صاحب بیگم سے لڑ کر، یا بڑے صاحب سے ڈانٹ کھا کر آیا ہوا تو پتہ نہیں کیا سزا دے دے۔ اسی سوچ میں گم اس نے ایک ویگن والے کو رکنے کے لئے ہاتھ دیا، مگر کنڈکٹر نے دروازے کے ساتھ کھڑکی پر زور سے ہاتھ مارکرکہا ’’جان دیو استاد جی صرف مفت خورا ای اے سواری کوئی نئیں! ’’اور وہ شرمندہ ہو کر اگلی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ بار بار گھڑی کو دیکھنے کے بعد اضطراب، پریشانی اور ان دیکھے خوف کے ساتھ، اس نے کتنی ہی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، رکشوں اور کاروں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ مگر کسی نے ہاتھ کے اشارے سے، کسی نے زبان سے، اور کسی نے چہرے سے نفرت کا اظہار کیا اور پاس سے گزر گئے۔ پھر ایک موٹرسائیکل سوار نے کمال مہربانی اور احسان کرتے ہوئے اس کو بٹھا لیا اور بتی چوک (نیازی چوک) اتار دیا۔ وہاں پر پھر دوبارہ وہی مشق کے بعد بالآخر وہ بند روڈ پر اترا اور پیدل تھانہ شیرا کوٹ کی طرف ہو لیا اور دماغی طور پر اپنے اعصاب کو دیر سے آنے والے عذاب کے لئے تیار کرنے لگا۔
آج بھی اس افسانہ کا حرف بہ حرف سچ محسوس ہوتا ہے آج بھی حکومت اس اہم محکمہ کے لئے وہ ماحول نہیں مہیا کر پائی جس کا یہ حق دار ہے حالانکہ پولیس کلچر بدلنے کے نام پر بھی ووٹ لئے گئے مگر کلچر تو تب ہی بدلے گا جب اس محکمہ کے لئے بھی آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔
سیاستدانوں کے بعد عوام اور میڈیا کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے والوں میں پولیس سرفہرست ہے اور دونوں شعبہ جات میں یہ بات مشترک ہے کہ تنقید کے باوجود یہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں کسی بھی قسم کا سخت ردعمل نہیں دیتے۔ تنقید کرنا ہر ذی شعور کا حق ہے لیکن اس حق کے استعمال سے قبل اس بات کو مدنظر رکھا جانا بہت ضروری ہے کہ ہمارا ہدف تنقید بھی کیا اپنے حقوق سے محروم تو نہیں کیا ہم اپنے حقوق کے حصول کے لیے اس کے حقوق تو غصب نہیں کر رہے جس طرح پولیس کو گزشتہ چند دہائیوں سے استعمال کیا گیا اتنی کے تیز رفتاری کے ساتھ اس کے حقوق پر ڈاکہ بھی مارا گیا آج بھی حقائق کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے کتنے وسائل اس محکمہ کو دستیاب ہیں عوام کو پرسکون رکھنے کے لئے اس فورس کا حصہ افراد خود کس حد تک پرسکون اور مطمئن ہیں۔
پولیس پر بہت بڑا اعتراض جعلی پولیس مقابلوں، غیر قانونی حراست، دوران حراست تشدد اور جھوٹے مقدمات کے اندراج کا ہے کیا پولیس کو جعلی مقابلوں سے روکنے کے لئے ہم نے چوروں اور ڈاکوؤں کو سخت سے سخت سزا دلوانے کے لئے قانون سازی کر رکھی ہے کیا ہم ایسے سماج دشمن عناصر کے خلاف گواہی دینے والے افراد کی حفاظت کو یقینی بنا سکے ہیں کیا ہم نے پولیس کو تفتیش کے لئے جدید آلات مہیا کر دیئے ہیں۔
ہمیں اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ پولیس میں بداخلاقی کا عنصر کوں قابو میں نہیں آ رہا کیا ہم پولیس افسران اور ملازمین کو قانون کے مطابق کام کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں کیا معاشرہ انہیں وہ مقام سے رہا ہے جس کے وہ حق دار ہیں چاہے جتنا بھی اختلاف کیا جائے پولیس کی ورکنگ یا اس میں موجود کالوں بھیڑوں پر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ پولیس نے وسائل کی کمی کے باوجود لوگوں کی زندگی کو درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں کیا ہم لوگوں نے کبھی بھی اپنے طور پر پولیس شہدا کا دن منانے کی کوشش کی ہے ہم اپنے اس ادارہ کو عزت دینے کی بجائے اس کو تنقید کا نشانہ بنانے میں ہی مشغول رہتے ہیں مسلسل تنقید تو اچھے خاصے ذہین انسان کو بھی کند ذہن بنا دیتی ہے ہمیں پولیس کے لوگوں کو عزت و اہمیت دینی ہو گی جو تمام تر سماجی اور سیاسی مسائل کے باوجود عوام کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔