وطن عزیز میں سیاست عروج پر ہے۔ ہر پارٹی جلسے پہ جلسہ کر رہی ہے۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے نہ جانے کون کون سے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی عوام کو یہ باور کروانے میں لگا ہے کہ آپ کا اصل لیڈر میں ہوں باقی تو تمام کے تمام لٹیرے اور آپ کے دشمن ہیں۔ ایک دوسرے کو عوام دشمن، ملک دشمن، لٹیرا، جھوٹا، چور، ڈاکو ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ ہر ایک خود کو عوام دوست اور محب وطن ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے مگر حقیقت میں عوام کی فلاح نظر آتی ہے نہ ملکی محبت، جس کسی کو دیکھ لیں اُس کے عمل میں عوام نام کی کوئی چیز نہیں۔ صرف اور صرف ذاتی تشہیراور ذاتی مفاد ہے۔ کچھ سیاستدان نووارد ہو سکتے ہیں مگر اکثر و بیشتر عوام کے دیکھے بھالے ہیں۔
اگر کوئی نیا بھی ہے تو اُسے بھی ایک صوبے کی حکومت سنبھالے پانچ سال ہونے کو ہیں۔ اس لئے یہی کہیں گے کہ تقریباً تمام رہنمائوں کو موقع دے کر عوام دیکھ چکے ہیں۔ جب یہ نئی قیادت سامنے آئی تھی تو لوگ یقین کر بیٹھے تھے کہ یہ ملکی خزانہ عوام پر ہی خرچ کرے گی۔ گورنر ہائوس کی بڑی اور بے مقصد عمارت کو یونیورسٹی میں بدل دے گی۔ یکساں نظام تعلیم بھی نافذ کرے گی۔ امیر اور غریب کے فرق کو مٹائے گی مگر جب عوام نے دیکھا کہ نظریاتی کارکنوں کو بھول بھال کر اپنے اِردگرد اے ٹی ایم مشینیں اکٹھی کر لی گئی ہیں ۔ سینٹ کے ٹکٹ دوسری پارٹیوں کی طرح سرمایہ داروں کو بیچے گئے ہیں۔ بارہا سرکاری ہیلی کاپٹر اپنی ذات کیلئے بے رحمی سے استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری خزانے کو بے دردی سے اپنے جلسے جلوسوں اور دھرنوں پر خرچ کیا گیا تو عوام پیچھے ہٹ گئے اور لودھراں کے ضمنی انتخاب میں ووٹ نہ دے کر اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔ لوگ دیکھ چکے کہ جو بھی آیا اُس نے عوام کی بھلائی کرنے کی بجائے خود اپنی ذات کیلئے آسائشِ زندگی حاصل کی۔ ملکی خزانے کے منہ اپنے لئے کھولے۔ اپنی ذات کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کئے۔ تقریباً تمام بڑے رہنما اُن کا تعلق پنجاب سے ہو سندھ یا خیبر پختونخواہ سے اپنے ذاتی جلسے جلوسوں پر سرکاری خزانہ لُٹا رہے ہیں۔ جو پیسہ عوام کی فلاح کیلئے خرچ ہونا چاہئے تھا وہ اِن لیڈران کی ذاتی تشہیر کیلئے ہو رہا ہے۔ اس سارے عمل میں عوام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمدردی عوام سے جتائی جا رہی ہے مگر عوام کی فلاح کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ عوام کے منہ سے تو آخری نوالہ بھی چھیننے کی پوری کوشش جاری ہے۔ ملک قرضوں تلے دبتا جا رہا ہے اور ہمارے رہنمائوں کے اثاثے آمدن سے کہیں زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ملک کا سیاستدان ہو یا بیوروکریٹ ہر کوئی اپنے طبقے اور اپنی ذات کے مفاد کیلئے کام کر رہا ہے۔ ایک عام سرکاری آفیسر کے پروٹوکول اور اس کی مراعات کا احاطہ کر لیں آپکے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ سرکاری آفیسر کے دفتر کے ملازم الگ گھر کیلئے الگ گاڑی، فون اور دیگر مراعات الگ تنخواہیں بھی اچھی خاصی۔ یہ عام سرکاری آفیسر کے اخراجات ہیں جُوں جُوں اُوپری سطح پر جائیں اُن کے اخراجات سے تو لگتا ہی نہیں کہ وہ ترقی پذیر ملک کے ملازمین ہیں۔ سول بیوروکریسی ہو یا ملٹری یا پھر پارلیمنٹ کے ممبران ان کی آئے روز تنخواہیں اور مراعات بڑھتی رہتی ہیں اور جو غیر قانونی طور پر مراعات خود حاصل کی جاتی ہیں وہ الگ، اور اس تمام ترکے بعد کارکردگی جو ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے، ہر محکمہ کی ہر ادارے کی، ہر طرف صدائیں یہی ہیں ، محکمے تباہ ہو گئے ، ادارے ختم ہو رہے ہیں، سسٹم بیٹھ گیا ہے۔
سوچنا ہوگا مہنگی گاڑیاں خرید کر پرتعیش کھانے کھا کر، قیمتی لباس زیب تن کر کے کیا ترقی ممکن ہے؟ اب ہمیں سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ملک اور عوام کے ساتھ کھلواڑ ختم کرنا ہو گا۔ عوامی بھلائی اور ملکی ترقی کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے ہمیں سادگی کو اپنانا ہو گا۔ خلفائے راشدین کے زمانہ کو دیکھ لیں وہ اپنی ذات کیلئے مراعات نہیں لیتے تھے۔ ان کی خدمت گاروں کی فوج ظفر موج نہیں تھی۔ اُن کے پروٹوکول پر ملکی خزانہ نہیں لٹتا تھا۔ مگر اُن کی ملک پر گرفت بہت مضبوط تھی۔ معاشرہ خوشحال تھا۔ ہر طرف امن اور چین تھا۔ آج کے دور کو بھی دیکھ لیں یورپی اور مغربی ممالک میں حکمرانوں اور بیوروکریسی پر قومی خزانہ نہیں لٹایا جاتا۔ کینیڈا کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر آتا ہے مگر ہمارے ملک کا چپڑاسی بھی سائیکل پسند نہیں کرتا۔ ہمارے وزیراعظم کا قافلہ کہیں سے گزرے تو گاڑیاں گنتے گنتے آپ تھک جائیں گے مگر گاڑیاں ختم نہیں ہوں گی۔ ایک عام وزیر بھی سڑک پر سے گزرے تو عوام کو اپنی اوقات کا علم ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز کے تو کیا ہی کہنے۔
سابق وزیراعظم ملزم کی صورت میں عدالت حاضر ہو تو اُس کے پروٹوکول کو دیکھ کر آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔ ہمیں عام بیوروکریٹ سے لے کر صدر تک تمام کے پروٹوکول پر اُٹھنے والے بے تحاشہ اخراجات کو ختم کرنا ہو گا۔ ہرایک کو اپنے کام خود کرنے کی عادت کو اپنائے ہوئے ملازمین کی فوج کو ختم کرنا ہو گا۔ بیورو کریسی کے گھریلو ملازمین جو قومی خزانے پر پلتے ہیں اُسے بھی ختم کرنا ہو گا۔ سادگی کے فروغ کیلئے سادگی ایمرجنسی لگا دی جائے۔ سکول کے نصاب میں سادگی کی تعلیم کو شامل کیا جائے اور بچوں کی سادگی کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں سادگی کو اپنا سکیں۔ سادگی اپنا کر جتنا پیسہ ہم بچائیں گے اس سے سارے ملکی قرضے اُتر سکتے ہیں اور اگلے چند برسوں میں پاکستان خودکفیل ہو سکتا ہے۔ مگر یہ کام کوئی بھی کرنے کو تیار نہیں۔ اِس وقت وطن عزیز کو ضرورت ہے ایک مردِ قلندر کی جو ملکی خزانے کو لٹنے سے بچائے۔ قوم اس مرد قلندر کے انتظار میں ہے۔