آپ نے جنگ و جدل کی داستان پر مبنی ناول میں اختتام سے پہلے ’’آخری معرکہ‘‘ کا باب ضرور پڑھا ہوگا۔ اس باب میں عموماً منظرکشی کی جاتی ہے کہ دونوں فریق اپنی تمام تر صلاحیت اور طاقت کو بروئے کار لاکر ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لئے آخری زور لگاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی اندرونی سیاست میں بھی اِن دنوں ایسا ہی کچھ چل رہا ہے۔ نواز شریف کو سبق سکھانے کے لئے سیاسی اور غیرسیاسی سب دائوپیچ لگائے جارہے ہیں جبکہ نواز شریف بھی عوام کے جم غفیر کو ساتھ لے کر مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے صف بندی کرچکے ہیں۔ نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے نااہل قرار دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نامعلوم مقاصد کے لئے شروع ہونے والی یہ سیاسی جنگ اب اپنے اختتامی باب یعنی ’’آخری معرکہ‘‘ میں داخل ہوچکی ہے۔ یہاں ایک حساس پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ نواز شریف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد ہیں۔ مسلم لیگ ن کو سب سے بڑی سیاسی جماعت اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ ووٹر مسلم لیگ ن کے ہی ہیں۔ گویا ملک میں سب سے زیادہ ووٹروں کے قائد کا نام نواز شریف ہے۔ نواز شریف کو رسوا کرنے سے اُن کے ووٹروں میں جو احساس ذلت پیدا ہورہا ہے وہ ایک حساس معاملہ ہے۔ موجودہ سیاسی جنگ و جدل کی داستان میں آخری معرکے کا باب لکھنے والوں کو نواز شریف کے ووٹروں کے دل میں پیدا ہونے والے اِس احساس ذلت کے نازک معاملے کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے۔ سب سے زیادہ ووٹروں والے نواز شریف کے ووٹروں کا خیال ہے کہ مخالفین کا اُن کے قائد کو سیاسی طور پر شکست نہ دے سکنے کے باعث نواز شریف کو غیرسیاسی طریقوں سے روکا جارہا ہے۔ اب تک کی ہسٹری یہی بتاتی ہے کہ ایسی صورتحال مخصوص مفادات کو عارضی فائدہ اور ملک کو مستقل نقصان بھی دے سکتی ہے۔ پاکستان کے اندر شدید طوفانی سیاسی ماحول کی اِس ہیجانی کیفیت سے گھبرا کر اگر ملک کے خارجہ افق کی طرف دیکھیں تو کچھ اچھی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں یہی رائے دی جاتی تھی کہ ہم گلوبل برادری میں امریکہ کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں، امریکہ کے ماتھے پر پڑنے والی ہلکی سی تیوری کو بھی برداشت نہیں کرسکتے، امریکہ کی ایک فون کال پر ہمارے بہادر صدر لیٹ جاتے ہیں، روس پاکستان کے کبھی قریب نہیںآسکتا، روس بھارت کا دوست ہے، پاکستان کی معیشت میں مغربی ممالک کے سرمایہ کار تو ایک طرف غریب ممالک کے سرمایہ کار بھی انویسٹ کرنے کوتیار نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسی ہی بیشمار خبریں اور تجزیئے ہمیں ازبر یاد ہوچکے تھے لیکن ذیل کی چند خبروں کو پڑھ کر تجزیہ کرنے سے حیرانگی اور خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان نے خاموش حکمت عملی کے ساتھ خارجہ امور کے میدان میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا شروع کردیا ہے۔ مثلاً چند دن پہلے امریکہ کی 17 خفیہ ایجنسیوں نے ایک مشترکہ رپورٹ کانگریس میں جمع کروائی کہ ’’پاکستان امریکی اثر سے نکل رہا ہے اور 2019ء تک مکمل طور پر چین کے حلقے میں شامل ہو جائے گا‘‘۔ یہ سالانہ خفیہ رپورٹ تھی جو ڈائریکٹر یوایس نیشنل انٹیلی جنس نے سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کو پیش کی۔ یہ رپورٹ جہاں امریکہ کے لئے تشویش ناک ہے وہیں پاکستان کے آزاد خارجہ پالیسی کی طرف قدم بڑھانے کے حوالے سے پاکستانیوں کے لئے خوشخبری بھی ہے۔ چند دن پہلے جرمنی کے شہر میونخ میں انٹرنیشنل سیکورٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر سے ٹاپ سیکورٹی ماہرین شامل تھے۔ اس میونخ سیکورٹی کانفرنس میں پاکستان کی آواز دنیا کے سامنے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہنچائی۔ انہوں نے لگی لپٹی بغیر پاکستان کی پوزیشن سب پر واضح کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں گزشتہ برسوں میں 130 حملوں میں سے 123 افغانستان سے کئے گئے‘‘۔ جنرل باجوہ کی اِس تقریر کا دنیا کے سیکورٹی ماہرین کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی ماہرین کو پاکستان کا یہ آئینہ دکھانا خارجہ امور میں ایک بہادر خبر ہے۔ چند دن پہلے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اہم اجلاس پیرس میں ہوا۔ کئی ہفتوں سے اس اجلاس کے حوالے سے پاکستان میں خوف و ہراس موجود تھا کیونکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرنے تھی۔ یعنی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک میں سے تین مجوزہ قرارداد کے حق میں تھے۔ تاہم اجلاس میں پاکستان کے خلاف فیصلہ نہ ہوسکا اور پاکستان کو مزید تین ماہ مل گئے۔ ہمارے خارجہ امور میں یہ ایک انہونی تھی جو ہوگئی۔ چند دن پہلے پاکستان کے وزیر خارجہ نے روس کا دورہ کیا۔ روس کو بھارت کا قریبی دوست کہا جاتا تھا اور یہ بھی کہ روس پاکستان کو بالکل پسند نہیں کرتا لیکن پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کی حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس نے مخالفین کی آنکھوں میں نمی پیدا کردی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ’’ہم روس کے ساتھ تجارت، توانائی، صنعت، دفاع، دفاعی پیداوار، کلچر اور تعلیم سمیت تمام شعبوں میں تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں‘‘۔ روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو سراہا اور کہا کہ روس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی صلاحیتوں میں اضافے کے لئے تعاون کرے گا۔ اس کے علاوہ مستقبل میں پاکستان اور روس کی مزید مشترکہ فوجی مشقوں کی بھی امید ہے۔ پاکستان اور روس کا ایک دوسرے کے قریب آنا خارجہ امور میں پاکستان کے مخالفین کے لئے ایک بری خبر ہے۔ چند دن پہلے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی ایک رائے سامنے آئی کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد اپنی سرمایہ کاری کے سلسلے میںپریشان ہیں۔ ان کی تشویش میں مزید اضافہ مشرق وسطیٰ کے خراب حالات نے کردیا ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کے لئے اب پاکستان کے سی پیک اور گوادر کو اہمیت دینے پر غور کررہے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے خیال میں پنجاب بالخصوص لاہور سرمایہ کاری کے اعتبار سے پرکشش علاقے ہیں۔ خارجہ امور میں پاکستانی معیشت کے لئے یہ خبریں مخالفین کی نیندیں ڈسٹرب کرسکتی ہیں۔ پاکستان کے خارجہ امور میں اچھی خبروں کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اندرونی سیاسی امور میں بھی استحکام آئے اور اندرونی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جنگ و جدل کی کتاب کا اختتامی باب ’’آخری معرکہ‘‘ کی بجائے ’’باہمی احترام‘‘ پر لکھا جائے۔