دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل کی بات ہے ، پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، بیڈ گورننس اورعوامی مسائل سے چشم پوشی اس حکومت کی وجہ شہرت تھی ، یہ بات واضح تھی کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے الیکشن بری طرح ہار جائے گی ، اس وقت میں وقت نیوز سے وابستہ تھی ، پیپلز پارٹی کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے نوائے وقت کے سینئر صحافیوں کو ایک عشائیہ دیا، وہاں جب ان سے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی خراب پوزیشن کا ذکر کیا گیا تو وہ ماننے کو ہی تیار نہیں تھے ، قمر زمان کائرہ کا شمار پیپلزپارٹی کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو میڈیا کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں اور نہایت تلخ سوالات کے بھی نرم لہجے میں جواب دیتے ہیں ، انکی سیاسی فہم و فراست کے بھی سب معترف ہیں ، انہوں نے نوائے وقت کے سینئر صحافیوں کے سامنے پنجاب کے حلقوں کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا اور ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کامیابی حاصل کرے گی ، ہم سب خاموشی اور حیرانی سے انکے تجزیئے کو سنتے رہے ، اور سوچتے رہے کہ پیپلز پارٹی زمینی حقائق سے اتنی بے خبراور اپنے خوابوں کی دنیا میں کیوں گم ہے ؟
دو ہزار تیرہ کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بری طرح شکست ہوئی، خود کائرہ صاحب اپنی نشست ہار گئے ، کچھ اسی قسم کی خوابوں کی دنیا تحریک انصاف بھی بنا کر بیٹھی ہوئی تھی ، مگر لودھراں ضمنی الیکشن کے نتائج نے پارٹی کو زمینی تلخ حقائق کے سامنے لا کھڑا کیا ہے ، تحریک انصاف کے امیدوارعلی ترین الیکشن سے پہلے ہی الیکشن جیتنے کا دعویٰ کر رہے تھے اور بھاری لیڈ لینے کی منصوبہ بندی میں مگن تھے ، مگر جب نتائج آئے تو سب حیران تھے ، تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی نشست ہار گئی ، پارٹی کے امیدوار علی ترین اب اعتراف کرتے ہیں کہ وہ الیکشن کے روز اپنے ووٹرز کو باہر لانے میں ناکام رہے ، مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ وہ مکا جو لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیئے۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اپنی لودھراں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے ، مگر سوال یہ ہے کہ 2013 کے عام انتخابات کی غلطیوں سے جب کوئی سبق نہیں سیکھا گیا تو اب جبکہ عام انتخابات میں صرف چند ماہ باقی ہیں ، تحریک انصاف کس طرح تمام حلقوں میں اپنی تنظیم کی اصلاح کر پائے گی ، لودھراں کی شکست نے یقیناً وزیراعظم نواز شریف کے بیانیئے میں جان ڈال دی ہے ، انکے اعتماد کا اب یہ عالم ہے کہ وہ پنجاب ہائوس میں اپنی جماعت کے رہنمائوں کو سامنے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے انہیں نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے بجائے موٹر وے سے سفر کرنے کا مشورہ دیا تھا ؟ ایسے سوال پر بھلا کون سامنے آنے کی جرأت کرتا ہے ، اسکے بعد کس کی ہمت ہو گی کہ وہ آئندہ میاں نواز شریف کو کوئی مشورہ دے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں خوشامد کا کلچر اتنا پروان چڑھ چکا ہے کہ اب کوئی اپنے لیڈر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتا ، لیڈروں کی ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خوابوں کی ایک ایسی دنیا بسا لیتی ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ، لودھراں کی کامیابی کے بعد اب میاں نواز شریف صرف اگلا الیکشن جیتنے ہی نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت لانے کے دعوے بھی کرنے لگے ہیں ، انہوں نے عدلیہ کے ساتھ لڑائی میں پارلیمنٹ کو بھی دھکیل دیا ہے ، ریاست کے ایک ادارے کیساتھ محاذ آرائی میں دوسرے ادارے کو شریک کر لینا جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا ، یہ لڑائی اب پھیلتی جا رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 68 کیمطابق عدالت عظمی یا عدالت عالیہ کے کسی بھی جج کے ، اپنے فرائض کی انجام دہی میں رویئے کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہو گی۔
اس آرٹیکل کی روشنی میں عدلیہ کیخلاف پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کو دیکھا جائے تو یقینا یہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے ، مگر لودھراں کی کامیابی نے مسلم لیگ ن کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیا ہے جہاں وہ عدلیہ سے محاذ رائی میں کامیابی کے بعد الیکشن میں دو تہائی اکثریت کا خواب بھی دیکھنے لگی ہے ، پیپلز پارٹی بھی 2013 کے انتخابات کے بعد خوابوں کی دنیا سے مکمل باہر نہیں آ سکی تھی ، حال ہی میں لاہور موچی گیٹ کے جلسے اور بلاول بھٹو کے غیر ملکی چینلز کو انٹرویوزکے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما یہ کہتے پائے گے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ چھا گئی ہے ، بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت گرانے کے بعد تو آصف زرداری کا اعتماد بھی اپنے عروج پردکھائی دیا انہوں نے یہ دعوی بھی کر دیا کہ اگلے الیکشن میں کسی جماعت کو اکثریت نہیں مل سکے گی، یہ باتیں بھی پھیلنا شروع ہو گئیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پیپلز پارٹی پر ہے ،اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی چند دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی ، مگر لودھراں الیکشن میں پیپلز پارٹی کو صرف تین ہزار ووٹ ملے جس پر پارٹی کو جس سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ، زرداری صاحب نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں رائو انوار کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک بہادر بچہ ہے ، ایک مفرور شخص جس پر سینکڑوں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے ، اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس شخص کیلئے سابق صدر کے یہ تعریفی کلمات نہ صرف ہم سب کیلئے بلکہ خود پیپلز پارٹی کیلئے بھی ایک دھچکے سے کم نہیں تھے ، اسی لیے چوبیس گھنٹے بعد زرداری صاحب اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور ہو گئے ، مگر کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں آتی ، رائو انوار کے معاملے پر سابق صدر کے منہ سے اضطراب کے عالم میں نکلے ہوئے الفاظ بتاتے ہیں کہ معاملات اتنے بھی اچھے نہیں کہ جتنا پیپلز پارٹی کے رہنما دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ایک جانب پاکستان میں اداروں کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے ، سیاستدانوں کی ساری توجہ اس پر ہے کہ اگلی بار اقتدار کس کو ملے گا ؟
مگر دوسری جانب دنیا میں پاکستان کیخلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ، پاکستان کا نام مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں کرنیوالے ممالک میں شامل ہونے کے بعد اب دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنیوالے ممالک میں شامل کرنے کی تیاریاں جاری ہیں ، اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں نومولود بچوں کی اموات کے لحاظ سے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے ، شرمناک بات یہ ہے کہ افغانستان اورافریقہ کے ممالک بھی اس حوالے سے ہم سے بہتر ہیں۔