6 برسوں کے دوران پاکستان میں بدعنوانی کم ہوئی‘ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل

Feb 23, 2018

اسلام آباد (آئی این پی + این این آئی) ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن رجحان انڈیکس 2017ء جاری کردیا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 6 ماہ کے دوران پاکستان میں بدعنوانی میں کمی ہوئی۔ 2012ء میں پاکستان کا سکور 27 تھا گزشتہ 6 سال کے دوران بدعنوانی کے حوالے سے پاکستان کا سکور 2015 بہتر ہو کر 32 ہو گیا۔ 2016ءکی رپورٹ میں بھی پاکستان کا سکور یہی تھا۔ این این آئی کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 1995ء کے بعد سے اب تک جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت آئی کرپشن میں واضح کمی دیکھی گئی۔ سال 2017ء میں پاکستان کی ریٹنگ 32 دکھائی گئی جو موجودہ حکومت کے پہلے سال کی نسبت 5 پوائنٹ زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں پاکستان کا نمبر 32 ہے جبکہ گزشتہ برس بھی یہ نمبر 32 ہی تھا۔ اس سے قبل 2015ءمیں پاکستان کا نمبر 30، 2014ء میں 29 اور 2013ء میں 28 تھا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 1996ء میں پاکستان 85 ممالک میں 71 ویں نمبر پر تھا۔ 1996ءمیں مسلم لیگ نی کی حکومت قائم ہوئی اور صرف دو سال یعنی 1998ءمیں پاکستان کا کرپشن انڈیکس ایک پوائنٹ کے اضافے کیساتھ 2 اعشاریہ 7 پر دیکھا گیا۔ سال 1998ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے کے بعد اگلے 9 سال کرپشن کی صورتحال خراب دیکھی گئی۔ 2004ءاور 2005ءمیں رینکنگ کم ترین سطح 2 اعشاریہ 1 پر رہی تاہم 2007ء میں جب ملک میں پرویز مشرف کا اقتدار ختم ہوا اور ق لیگ کی جمہوری حکومت آئی تو کرپشن انڈیکس 2 اعشاریہ 4 پر تھا۔ آئی این پی کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے مختلف ممالک میں بدعنوانی کے تاثر سے متعلق تازہ سالانہ رپورٹ کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2017 میں پاکستان کو 32 کے اسکور کے ساتھ 117 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں 180 ملکوں کو بدعنوانی یعنی کرپشن کے اعتبار سے تین درجوں یعنی مکمل مبرا، جزوی طور پر مبرا اور غیر مبرا میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور تاجکستان کو بدعنوانی کی مثال قرار دیا گیا ہے۔ قرغزستان، نیپال اور پاکستان کو بدعنوانی سے جزوی طور پر مبرا جب کہ افغانستان اور میانمار کو غیر مبرا کے درجے میں رکھا گیا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں زمین سے متعلق امور سے 75 فیصد عوام کا جب کہ پولیس سے 65 فیصد واسطہ پڑتا ہے جہاں ہر سطح پر رشوت ستانی موجود ہے، یہاں تک کہ ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2017 کےلیے پاکستان کا سکور 32 جبکہ بنگلہ دیش کا سکور 28 رہا۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، قرغزستان، میانمار، نیپال، اور تاجکستان میں انتہائی درجے کی بدعنوانی ہے، جس کے نتیجے میں وسیع شعبہ جات اور ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی کے اعتبار سے پاکستان کا پڑوسی ملک افغانستان، 15 سکور کے ساتھ دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا سکور 40 اور چین کا 41 ہے، یعنی چین میں بھارت سے کم بدعنوانی ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان ممالک میں بدعنوانی کے خلاف کوششوں میں محدود پیش رفت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور غیرملکی سرمایہ کار یا کمپنیاں رشوت ستانی کو اِن ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ اِن ممالک میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے کا ریکارڈ خاطر خواہ نہیں، سرکاری رقوم کے انتظام میں عدم شفافیت کا عنصر عام ہے اور کالا دھن سفید کرنے کی روک تھام (اینٹی منی لانڈرنگ) کے سلسلے میں ضابطے بھی غیر تسلی بخش ہیں۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں 147 فیصد، پاکستان میں 107 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 202 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس حوالے سے بھی غیر شفافیت برتی جا رہی ہے۔ بھارت میں 2013 کے دوران فوج غیرقانونی طور پر گولف کورس چلا رہی تھی، جو سرکاری زمین پر واقع ہیں؛ جب کہ بھارتی فضائیہ کے اہل کار ناجائز شاپنگ مالز اور سینما ہال چلارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ فوج ملک کے قدرتی وسائل کا ناجائز اور بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ حاصل کردہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک جہاں صحافتی آزادی اور غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظ کا خاطر خواہ بندوبست نہیں، وہاں رشوت ستانی کی شرح بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل

مزیدخبریں