چین نے کہا ہے کہ اسے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کے مقابل امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے منصوبہ پر کوئی تشویش نہیں، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سماجی ، معاشی اور باہمی تعاون کا نظام ہے، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کو پہلے ہی 60سے زائد ممالک تک پہنچایا جا چکا ہے، چین کسی بھی ایسے منصوبے کا مخالف نہیں جس سے معاشی و سماجی فوائد حاصل ہوں، چین نے ہمیشہ اشتراکیت کے ذریعے ترقی کو سپورٹ کیا ہے،اوبور منصوبہ بین الاقوامی برادری کا حمایت یافتہ منصوبہ ہے، ایسے منصوبے انتہائی اہم لیکن رضاکارانہ ظور پر بنائیں جائیں۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے گذشتہ روز اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں صحافیوں کی جانب سے کئے گئے اس سوال کہ امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا مشترکہ علاقائی بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی پر غور کررہے ہیں جو چین کے بیلٹ اور روڈ کا متبادل تصور کیا جا رہا ہے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چین کو اس پر کوئی تشویش نہیں ہے ۔ چین اس منصوبے پر کسی بھی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں۔چین نے پہلے ہی بیلٹ اینڈ روعڈ منصوبہ کے ایسوسی ایٹ منصوبہ کی تجاویز دی ہوئی ہیں۔ جس کے ذریعے مختلف ممالک مابین بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور باہمی روابط سے ترقی کی منازل طے کی جائیں گی۔ کینگ نے کہا کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سماجی ، معاشی اور باہمی تعاون کا نظام ہے۔ جس کے ذریعے اتراکیت کے ساتھ باہمی ترقی کی منازل طے کی جائیں گی۔ چین کے اس اقدام کو عالمی سطح پر سراہا گےا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کو پہلے ہی 60سے زائد ممالک تک پہنچایا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مئی میںایک بیلٹ اور ایک روڈبین الاقوامی تعاون سربراہی اجلاس بیجنگ میں منعقد ہواتھا جس میں 140 سے زیادہ ممالک نے اس اجلاس میں حصہ لیا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے ثمرات ظاہر ہونے لگ گئے ہیں۔ اوبور منصوبہ بین الاقوامی برادری کا حمایت یافتہ منصوبہ ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ چین کسی بھی ایسے منصوبے کا مخالف نہیں جس سے معاشی و سماجی فوائد حاصل ہوں۔ چین نے ہمیشہ اشتراکیت کے ذریعے ترقی کو سپورٹ کیا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ کھلی اور جامع پالیسی کی مثال ہے جس میں تمام ممالک سے تجاویز لی جاتی ہیں۔ بینادی ترقی کے لئے اس قسم کے منصوبے انتہائی اہم ہیں لیکن ان کو رضاکارانہ طور پر کیا جانا چاہئے۔ چین دنیا بھر کے تمام ممالک کا استقبال کرتا ہے تاکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کی کارکردگی کو بڑھایا جا سکے۔ایسے اقدامات سے تعاون میں متعلقہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ ملے گا۔
٭٭٭٭٭٭