اسلام آباد(آئی این پی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری میں بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری نجکاری نے بتایا موجودہ 193اداروں کی وجہ سے قومی خزانے کو دس ہزار بلین روپے کے خسارہ برداشت کرنا پڑرہاہے۔ انیس سو اکیانوے سے دوہزار اٹھارہ تک ایک سو بہتر اداروں کی نجکاری ہوئی چھ سو اڑتالیس ارب روپے کے ایک سو بہتر ادارے فروخت کیے گئے گیس سیکٹر، پٹرولیم سیکٹر کی نجکاری سے فائدہ ہوا۔ تفصیلات کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس سینٹر میر محمد یوسف بادینی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کو سیکرٹری نجکاری کمشن کی کمیٹی کو بریفنگدیتے ہوئے بتایا کہ 1998سے 2000تک دس اداروں کی فروخت سے 389بلین روپے حاصل ہوئے جن میں گلشن اقبال کراچی، سیسل ہوٹل لاہور، پنجاب گھی ملز، نیشنل ٹیوب ویل کنسٹرکشن کارپوریشن، ڈیوٹی فری شاپ، پبلک موٹرز کا پلاٹ، فیڈرل لاج ڈین ہوٹل، ایس ایس جی سی ایل پی جی، برما آئل شامل ہیں۔ انہوں نے حکومتی پالیسی بنیان کرتے ہوئے کہاکہ اداروں کی نجکاری کے تین مقاصد تھے جن میںجو ادارے خسارے میں جا رہے ہوں ان اداروں کے چلانے کےلئے معاون پارٹنر تلاش کرنے، معمولی منافع کمانے والے ادارے، اور کیپیٹل مارکیٹنگ حاصل کرنا ہے آنے والے وقت میں سٹیٹ لائف، پاک انشورنس کو فروخت کرناہے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ اگر نجکاری کے بعد نگرانی کی جاتی ہے تو پی ٹی سی ایل کے ملازمین کا کوئی والی وارث کیوں نہیں بنا لوگوں کو نکال دیا، چولہے ٹھنڈے کر دیے گئے بتایا جائے کون کون سے ادارے پرائیویٹائزیشن لسٹ پر ہیںجس پر نجکاری حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ملازمین کو نکالنے کے کورٹ میں کیسز چل رہے ہیں کورٹ کیسز میں نجکاری کمشن کے حکام بھی جاتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت اپنے سارے فنکشن ہوٹلوں کی بجائے کنونشن سینٹر میں کرے تو اس سے بہت فائدہ ہو گانجکاری کیے جانے والے ادارے منافع بخش بن سکتے ہیں۔ حکومت اربوں روپے اگر ہوٹلوں کی بجائے اگر کنونشن سینٹر میں رکھے جائیں تو یہ منافع بخش بن سکتے ہیں۔