نیویارک+کابل(شِنہوا+انٹرنیشنل ڈیسک)اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ تھی۔ ہفتے کے روز افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کم ہے، جب کہ طالبان، افغان فورسز اور امریکی کارروائیوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جاری شورش سے کوئی عام شہری محفوظ نہیں ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب طالبان اور امریکی فورسز کی جانب سے ’تشدد میں کمی‘ کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2019کے دوران 10ہزار سے زائد شہری حادثات کا شکار ہوئے جن میں سے 34 سو قتل ہوئے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغان تنازعہ میں فریقین نے 10 ہزار سے زیادہ شہریوں کو ہلاک و زخمی کیا جن میں سے34 سو 3 شہری ہلاک اور 6ہزار 9سو 89 شہری زخمی ہوئے ، زیادہ تر شہری ہلاکتیں حکومت مخالف عناصر کی جانب سے کی گئیں ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ مسلسل چھٹا سال ہے جب حادثات کا شکار ہو نے والے شہریوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔اس رپورٹ کا اجرا ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ہفتہ سے 7 یوم کے لئے تشدد میں کمی کا آغاز ہوا ہے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور یو این اے ایم اے کے سربراہ تادامیچی یاماموتو نے کہا ہے کہ لگ بھگ افغانستان کا کوئی بھی ایسا شہری نہیں جو جاری پر تشدد واقعات سے متاثر ہونے سے بچا ہو۔تمام فریقین کیلئے ضروری ہے کہ وہ لڑائی کو روکنے کیلئے ہر لمحے کو برائے کار لائیں کیونکہ امن طویل عرصے سے تاخیر کا شکارہے ، شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور امن کی خاطر کوششوں کو جاری رکھا جائے۔رپورٹ میں فریقین سے شہری ہلاکتیں روکنے کامطالبہ کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشعل بیچلیٹ نے کہا ہے کہ جنگجوں کو خواتین ، مردوں ، لڑکوں اور لڑکیوں کی بم ، گولوں، راکٹوں اور دیسی ساختہ بارودی سرنگوں سے ہلاکتوں کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔