ریاست ِ مدینہ اور پاکستان

ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی قوانین کے مطابق وجود میں آئی ۔ قیام پاکستان کے بعد جب بانیء پاکستان قائداعظم ؒ سے پوچھا گیا تو انکا جواب تھا کہ ’’ پاکستان کی قانون سازی آج1400سال قبل ہو چکی ہے ۔‘‘ قائداعظم ؒ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے وجود میں آنے والی یہ ریاست اب ریاستِ مدینہ کی عملی تصو یر ہوگی۔ قائداعظم ؒ نے اپنی 11اگست1947؁ء کی تقریر میں بھی جو عملی ہدایات پیش کیں وہ ریاستِ مدینہ کے قیام کی جانب اشارہ دیتی ہیں۔افسوس یہ ہے قائداعظم ؒ کے انتقال پر ملال کے بعد ہم نے ریاستِ مدینہ کے تصور کو بھلادیا۔ گزشتہ سات دہائی میں پاکستان کے حکمرانوں نے تین مرتبہ آئین کو تشکیل دیا لیکن کسی نے بھی ریاستِ مدینہ کی بات نہیں کی۔ اگست 2018؁ء میں عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھاتے ہی پاکستان کو ریاستِ مدینہ میں تشکیل دینے کے عزم کا اعلان کیا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ قائداعظم ؒ کے بعد کسی پاکستانی حکمران نے ریاست ِمدینہ قائم کرنے کانام تو لیا ۔ لیکن قبل اسکے کہ ہم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنائیں ذرا ریاستِ مدینہ کے تصور پہ سرسری نگاڈالیں ۔ریاستِ مدینہ کا مطلب ہے کہ انسانیت پہ مبنی اصولوں پہ حکمرانی کی جائے۔ جب پیارے نبیؐ اسلام کا پیغام لائے اور سخت جد وجہد کے بعد اسلامی ریاست قائم کی جس میں محبت ،اخوت ،مساوات اور برابری کے اصول پہ حکومت اور معاشرے کی تشکیل ہوئی۔ریاست ِمدینہ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کوئی غیر مسلم بھی بھوکا نہیں سوتا تھا کیونکہ اسکی ذمہ داری بھی اللہ کے پیارے نبی ؐنے اٹھا رکھی تھی۔یہ مکمل فلاحی ریاست تھی۔پیارے نبی ؐکے بعد خلفائے راشدین نے ریاستِ مدینہ کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی سلطنت دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکی تھی اور بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی جا چکی تھی لیکن اسلامی حکومت کا منبع اور دارلحکومت مدینہ ہی رہے جس میں خلفائے راشدین کے طرز حکومت مثالی تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول تھا کہ ان کے دورِ میں اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو وہ جوابدہ ہوں گے۔
حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں احتساب کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ جمعہ نماز کاخطبہ شروع کرنے سے قبل ایک صحابی نے سوال کیا کہ پہلے آپ یہ جواب دیں کہ بیت المال سے ہر ایک کوایک چادر عطا کی گئی۔ آپ کا قداتنا لمبا ہے کہ آپکا تن ڈھانپے کے لئے ایک چادر ناکافی ہے ۔یہ بتائیں کہ دوسری چادر آپ نے کیوں کر حاصل کی۔ حضرت عمر ؓ کے فرزند نے اپنے والد کے جواب دینے سے پہلے ہی کھڑ ے ہو کر وضاحت کی کہ یہ درست ہے کہ ایک چادر میرے والد کے لئے ناکافی تھی لہذا میںنے اپنی چادر بھی انہیں دے دی۔واضح رہے کہ بیت المال کا تصور بھی حضرت عمرؓ نے دیا تھا اور اس ادارے سے عوام کی فلاح وبہبود کو لازمی بنانا نصب العین تھا۔ریاستِ مدینہ میں حضرت عمرؓ نے ہی یہ قانوں رائج کیا تھا کہ کوئی سرکاری افسر ذاتی تجارت یا پیشہ جاری نہیں رکھ سکے گا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مصر کے گورنر کو مدینہ طلب کیا تو انکی زرق برق پوشاک دیکھ کر سوال کیا کہ سرکاری تنخواہ میں اتنا قیمتی لباس کیسے زیب تن کر سکتے ہو؟ گورنر نے جواب دیا ’’کہ فرصت کے اوقات میں کچھ تجارت کر لیتا ہوں۔‘‘
حضرت عمرؓ یہ جواب سن کر آگ بگولا ہوگئے کہ’’ میں نے تمہیں عوام کی خدمت پہ مامور کیا ہے اور تمہارے پاس فرصت کے اتنے اوقات ہیں کہ تم ذاتی تجارت کرتے ہو۔‘‘اس واقعہ کے بعد سے حضرت عمرؓ نے اوپر تذکر ہ شدہ قانون لاگو کردیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بتاتا چلوں کہ امریکی آئین نے یہ قانون ریاستِ مدینہ سے مستعار لے کر اپنے صدر ،گورنر اور سرکاری ملازمین کے لئے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ دوران ملازمت وہ اپنی ذاتی تجارت یا پیشے کو فروغ نہیںدے سکتے ہیں۔ دلچسپی کا امریہ ہے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے آئین میں میثاق ِمدینہ سے مدد لی گئی ہے۔امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع سپریم کورٹ کے دروازے پہ ایک تختی نصب ہے جس پر کنندہ ان شخصیات کے نام جنہوں نے دنیا کو قانونی نظام عطا کیا میں پیارے نبیؐ کا نام سر فہرست ہے۔ افسوس کہ مغرب نے ریاستِ مدینہ کے سنہری اصولوں کو اپنا یا جبکہ ہم نے بھلادیا۔
ریاستِ مدینہ میں تمام خلفائے راشدین سادہ زندگی بسر کرتے ۔ جذبہ ء خدمت اور ایثار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا، راتوں کو گشت کرتے تاکہ پتہ کر سکیں کہ عوام میں ضرورت مند کون ہے اور اسکی مدد کر سکیں۔ لیکن پیارے نبیؐ سب سے عظیم تھے حضرت بلالؓ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ پیارے نبی ﷺ کو کیسے دیکھا؟ بلال ؓ فرماتے ہیں کہ میں مکہ کے لوگوںکو بہت ہی کم جانتا تا کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کر ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے بھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کر لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک ؐ یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخارنے آلیا۔ شدید جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈاور بخارنے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا،لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا ۔ادھر میرا مالک یہ دیکھنے آیا کہ میں جو پیس رہا ہوں یا نہیں وہ مجھے لحاف اوڑھ کر لیٹا دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طورپر میری قمیص بھی اتروادی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کر جو پیس۔اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام ، میں روتا جاتا تھا جو پیستا جاتا تھا۔ کچھ دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی ، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہایت متین اور پُرنور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟ جواب میں کہا کہ جائو اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روئوں ،یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا ۔قصہ مختصر کہ بلال ؓ نے پیارے نبی ؐکو کافی سخت جملے کہے ۔حضور ؐیہ جملے سن کر چل پڑے۔ توبلال ؓ نے کہا کہ بس؟ میں نہیں کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔ حضورکریم ؐ یہ سن کر چلے گئے۔ بلال ؓ کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا،وہ بھی گئی ۔لیکن بلال ؓ کو کیا معلوم تھا کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے۔وہ رحمت للعالمین ہے۔ بلال ؓ کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر بعد وہ شخص واپس آگیا۔اسکے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں کچھ کھجوریں۔ اس نے وہ کجھوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کہ کھائو پیو اور جاکے سوجائو میں نے کہا کہ یہ جو کون پیسے گا؟ نہ پیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا کہ تم سو جائو یہ پیسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔بلالؓ سوگئے اور حضورکریم ؐ نے ساری رات ایک اجبنی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی ۔صبح کو بلالؓ کو پیسی ہوئی جو دے کر چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہوا۔دودھ اور دوا بلالؓ کو دی اور ساری رات چکی پیسی ۔ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک بلالؓ ٹھیک نہ ہوگئے۔ یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو عاشق رسولؐ کہا جاتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان جب ریاستِ مدینہ کی اصطلاح کاا ستعمال کرتے ہیں اور گزشتہ اٹھارہ ماہ سے مسلسل کرتے آرہے ہیں تو انہیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کے لئے انہیں کیا کرنا پڑے گا؟ہمارے پیارے نبیؐ نے عرب کے پسماندہ لوگوں کو دنیا کی عظیم طاقت بنادیا تھا لیکن اسکے لئے نام نہاد اسلامی ریاست قائم کرنے یا محض نظام شرعیت نافذ کرنے کے بجائے معاشرے کی اصلاح لازمی ہے۔ ابھی حال ہی میں آٹے کا بحران ہواتھا۔ بطور حاکم وقت عمران خان خود اپنی پیٹھ پر آٹے کی ایک بوری غریب لوگوں تک لے کر آتے اور مفت تقسیم کرتے تو بات تھی۔ انہیں بہت سے سخت اقدامات اٹھانے پڑیں گئے۔مساوات قائم کرنے کی خاطر لوگوں نے جوبڑی بڑی جاگیریں قائم کر رکھی ہیں انہیں قانونی طورپر ختم کرنا چاہیے ۔جائیداد اور ملکیت پر ٹیکس لگا کر وصول کیا جائے ،عدلیہ کے نظام کو شفاف بنایا جائے، سرکاری ملازمین ،قابلیت اور میرٹ پر ہوں۔ نظامِ تعلیم ایسا ہو کہ طلباء کے جو ہر کھلیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم ہو، رشوت ،چوری بازاری کا خاتمہ ہو، اہلِ ثروت ممالک سے بھیک حاصل کر نے کی بجائے تجارت کا سلسلہ قائم ہو اور ملک پہ فوج کی مداخلت کے بجائے سولین راج ہو۔عمران خان کو بھی پتہ ہونا چاہئے کہ ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا نعرہ لگانے کے بجائے اپنی ذات سے مثال قائم کرنا ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن