ڈاکٹر صغرا صدف ایک دھنک رنگ شخصیت ہیں۔ وہ گزشتہ برس تک پنجابی زبان کے فروغ کے لئے الحمراء کی عمارت میں ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ گذشتہ برس ان کو ایک اور ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس ادارے کے تحت انہوں نے ہندوستان سے آنے والے پچیس تیس سکھ حضرات کے اعزاز میں الحمراء ہال مال روڈ پر ایک زبردست تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں بہت سے گلوکاروں نے پنجابی نغمات اور غزلیں پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر صغرا صدف نے ہندوستان نے آنے والے سکھوں کے حوالے سے اپنی تقریر میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر سکھ حضرات نے ڈاکٹر صغرا صدف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج کا دن ہمارے لیئے ایک سنہری دن ہے۔ پاکستان میں سکھ حضرات سے جو محبت کی جاتی ہے۔ آج کا دن اس کی عظیم مثال ہے۔اب آتے ہیں ڈاکٹر صغرا صدف کی شخصیت کی طرف۔ ڈاکٹر صغرا صدف تمام ادیبوں، شاعروں اور سماجی کام کرنے والوں کی بہت عزت کرتی ہیں۔ اور ان کے اعزاز میں بطور ڈائریکٹر پنجابی ادارہ کے بہت سی تقریبات کا انتظام کرتی رہی ہیں۔ اور پنجاب زبان کے فروغ کے لئے بہت سی تقریبات منعقد کرتی رہی ہیں۔ چند ماہ قبل ان کی ٹرانسفر ایک اور ادارہ میں ہو گئی ہے۔ اب وہ الحمراء ہال سے اقبال ٹاؤن منتقل ہو گئی ہیں لیکن یہاں بھی وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق پروگرام کروا رہی ہیں۔ سکھوں کے اعزاز میں اس پروگرام سے پہلے علامہ اقبال ٹاؤن کے ایک ہال میں ڈاکٹر صغرا صدف کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں مقررین نے ڈاکٹر صغرا صدف کی صلاحیتوں کو زبردست داد دی تھی۔ میں بھی اس تقریب میں شریک تھا لیکن ہال کی تلاش کرتے ہوئے کافی دیر سے پہنچا اور آخری نشستوں پر بیٹھ گیا۔ تقریب کا اختتام پر سٹیج پر ڈاکٹر صغرا صدف جب اختتامی کلمات کہنے کیلئے تشریف لائیں تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو انہوں نے مجھے سٹیج پر بلا لیا اور مجھے ایک گلدستہ پیش کیا اور پھر اپنی ایک اردو شاعری کی کتاب ’’جدا ہیں چاہتیں اپنی‘‘ پیش کر دی۔ جب میں نے اس کتاب کو دیکھا تو مجھے علم ہوا کہ یہ اس کتاب کی اشاعت سوئم ہے۔ پہلی اشاعت جون 1999ئ‘ دوسری اشاعت نومبر 2016ء اور یہ تیسری اشاعت نومبر 2019ء میں شائع ہوئی اور اس کے سامنے والے صفحہ پر ڈاکٹر صغرا صد ف کا ایک شعر چھپا ہوا ہے جو مندرجہ ذیل ہے…؎
تمہاری یاد میں دل کی کتاب لکھتی رہی
میں شہر درد میں چاہت کے باب لکھتی رہی
کتاب کا آغاز نعت رسول مقبولؐ سے ہوتا ہے۔ جس کے دو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں…؎
ثنائے ختم رسلؐ صبح و شام کرتی ہوں
عقیدتوں کی شفق انؐ کے نام کرتی ہوں
دیارِ جاں میں ستارے اترنے لگتے ہیں
میں انؐ کے ذکر کا جب اہتمام کرتی ہوں
اس نعت کے بعد صغرا صدف نے حضرت حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے ایک غمزدہ شاعری تخلیق کی ہے جس کے دو شعر اس کالم میں شائع کئے جا رہے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں…؎
رہِ وفا میں کربلا کا مرحلہ ضروری تھا
شہادتوں کے باب میں یہ واقعہ ضروری تھا
رواں دواں تھے گمرہی کی سمت سارے کارواں
لہٰذا راہِ صدق میں یہ سانحہ ضروری تھا
حضرت حسینؓ کی شہادت کے بارے میں یہ غمزدہ شاعری اپنی ایک الگ شان رکھتی ہے۔ یہ کربلا کے تمام مناظر کی عکاس ہے۔اب آتے ہیں ڈاکٹر صغرا صدف کی غزلیات اورنظموں کی طرف۔ غزلیات میں صغرا صدف نے عجب زندگی کے تجربات کو بیان کیا ہے۔ صغرا صدف کے چند غزلیہ اشعار حسب ذیل ہیں۔
پھر ایک روز وہ لہروں کے خود حوالے کیں
میں چٹھیاں جو سرِ اضطراب لکھتی رہی
ایک امید اور بجھی میری
اک دِیا اور جلا کر آئی
کچھ اس انداز سے پوچھا ہے اس نے
مجھے سب کچھ بتانا پڑ گیا ہے
جب شام ڈھلے وہ ساحل پر اک ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے
اُس لمحے دل کے دریا میں اک کشتی ڈولنے لگتی ہے
حیات اندھے سمندر میں رواں ہے
یہ کشتی اب کنارہ چاہتی ہے
تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے
چراغاں سا ہے دل کے آستاں میں
ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
پھر بھی چاہیں وصال ہو جائے
ذرا سا پی کے ہی سیراب ہو گیا یہ دل
تمہارے چشمے کا اکسیر ایسا پانی ہے
ڈاکٹر صغرا صدف کی منفرد شاعری کی کتاب ’’جدا ہیں چاہتیں اپنی‘‘ پڑھ کر میرے ذہن میں یہ شعر گھومنے لگا …؎
قوس و قزح کے اس میں دھنک رنگ ہیں بہت
صغرا صدف کے رنگ ، دھنک رنگ ہیں بہت
صغرا صدف کے رنگ‘ دھنک رنگ ہیں بہت
Feb 23, 2020