دیوانے ہو بھی جاتے ہیں دیوانہ کر بھی لیتے ہیں
قیامت کے دہانے پر ذرا سا مر بھی لیتے ہیں
خواہش کھونے پانے کی دھیانی بے دھیانی میں
بہت زورِ تذبذب میں خدا سے ڈر بھی لیتے ہیں
جو راہوں سے اٹھے خشکی لیں حکمت آستینوں میں
ہوں اتنے کھوکھلے سینے تو سانسیں بھر بھی لیتے ہیں