’’عمر بھر کون حسیں، کون جواں رہتا ہے‘‘

Feb 23, 2021

نصرت جاوید

کئی برسوں سے امریکہ میں گوشہ نشین ہوئے احمد مشتاق صاحب نے بے تحاشہ ایسے مصرعے لکھے ہیں جو سادہ اور برجستہ ہوتے ہوئے بھی غالبؔ کی ’’پرکاری‘‘ کا حیران کن اظہار ہیں۔اُردو ادب کے انتہائی محنتی محقق ونقاد شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے ناول لکھنا چاہا تو اس کا عنوان ان ہی کے ایک مصرعہ:’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ سے مستعار لیا ۔ یہ ناول اپنی جگہ دل موہ لیتا ہے۔میرے مہربان آغا ناصر مرحوم کی لیکن شدید خواہش رہی کہ میں غالبؔ کی زندگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے 1857کی دلی کو بیان کرتا کوئی ڈرامہ لکھوں۔وہ اسے پروڈیوس کریں گے۔ فاروقی صاحب کا ناول انہوں نے مجھے بالخصوص اس مقصد سے پڑھنے کو مجبور کیا کہ ان دنوں دلی میں مستعمل اُردو زبان کے لہجے اور روزمرہّ زندگی پر گرفت حاصل کرسکوں۔
پیدائشی سست ہوئے اگرچہ میں یہ ڈرامہ نہ لکھ پایا۔ایک ٹاک شو کی ’’اینکری‘‘ سے خود کو ’’سٹار‘‘ تصور کرتا رہا۔ربّ کا صد شکر کہ اگست 2018میں عمران خان صاحب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔میرے ایک دیرینہ دوست -فواد چودھری صاحب- کو انہوں نے ہمارے صحافتی اداروں کو ان کے بزنس کا ’’جدید ماڈل‘‘ سمجھانے پر مامور کیا۔ان کی کاوشوں سے تحقیق ہوئی تو دریافت ہوا کہ میں جس صحافتی ادارے کی سکرین پر نمودار ہوتا ہوںوہ ’’معاشی بحران‘‘ سے دوچار ہوجاتا ہے۔اب کونے میں بیٹھ کر دہی کھارہا ہوں۔گوشہ نشینی کے ایام میں احمد مشتاق کا ’’عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے‘‘اکثر ذہن میں گونج اُٹھتا ہے۔گزشتہ دو دِنوں کے دوران وہ ضرورت سے زیادہ یاد آیا۔
اسلام آباد میں مقیم رپورٹروں سے ’’اندر کی بات‘‘ معلوم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔کئی برسوں کے تجربہ نے اگرچہ سکھایا یہ ہے کہ ’’اندر کی بات‘‘ درحقیقت کسی ’’سازشی کہانی‘‘ کی تصدیق کے لئے جاننے کی کوشش ہوتی ہے۔اپنی جگہ کوئی ’’سازش‘‘ ہورہی ہو یا نہیں اقتدار کے کھیل پر نگاہ رکھنے والے اسے ’’سونگھنے‘‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ رپورٹروں سے امید باندھی جاتی ہے کہ وہ اپنی ’’معلومات‘‘کی بنیاد پر ’’سازش‘‘دریافت کرتے ہوئے ’’مثالیں دے کر واضح‘‘ کریں۔’’ محض چسکے کی خاطر سازشی کہانیوں کو ’’ٹھوس مواد‘‘ فراہم کرنے کی عادت مجھے بہت عرصے تک لاحق رہی۔ اقتدار کے کھیل سے جڑی کوئی مزے دار کہانی چل رہی ہوتی تو میں اس کے نمایاں کرداروں کے ’’شجرے‘‘ اور ’’تعلق واسطے‘‘ بیان کرتے ہوئے رونق لگادیتا۔قدیم زمانے کے ’’درباری مسخرے‘‘ بھی ایسے ہی ’’تانے‘‘ بن کر توجہ حاصل کیا کرتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ مگر احساس ہوا کہ یاوہ گوئی وقت کا قطعاََزیاں ہے۔ سیاسی منظر نامے پر جو نظر آرہا ہوتا ہے اسے انگریزی زبان میں بتائے As it isدیکھنے کی بھی کوشش ہونا چاہیے۔
تمہید خواہ مخواہ طوالت پکڑرہی ہے۔اصل موضوع پر پلٹتے ہوئے آپ کو اطلاع یہ دینا تھی کہ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد کی کسی محفل میں جب بھی صحافی یا سیاست دان مل بیٹھیں تو سب کی توجہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جانب مبذول ہوجاتی ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کو کیا ہوا ہے‘‘؟ و ہ اتنا ’’خودمختار‘‘نظر آنا کیوں شروع ہوگیا ہے۔
جس ’’سوال‘‘ کا ذکر کررہا ہوں اس کے اٹھائے جانے کا آغاز الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کو فراہم کئے اس جواب سے ہوا جو مارچ میں سینٹ کی خالی ہونے والی 48نشستوں پر انتخاب کی بابت تھا۔عمران حکومت کی خواہش ہے کہ مذکورہ انتخاب’’خفیہ‘‘ ووٹنگ کے بجائے کھلے انداز میں ہو۔ہم سب کو معلوم ہوکہ کونسے رکن قومی اور صوبائی اسمبلی نے سینٹ کے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔ایسا طرزِ عمل اختیار ہوگیا تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود اراکین اپنا ووٹ ’’بیچ‘‘نہیں پائیں گے۔ہر سیاسی جماعت کو اس کے جثے کے مطابق حصہ ملے گا۔ہمیں حیران وپریشان کرتی انہونیاں نمودار نہیں ہوں گی۔
ملک میں ’’صاف ستھری‘‘ سیاست کے خواہاں افراد کی راہ میں لیکن ہمارے تحریری آئین کا آرٹیکل226کھڑا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ واضح انداز میں اصرار کرتا ہے کہ انتخابی عمل خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے۔ آئین میں ترمیم کے ذریعے یہ رکاوٹ بآسانی ہٹائی جاسکتی ہے۔اپوزیشن جماعتوں پر حاوی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے لیکن عمران حکومت ’’ہیلو ہائے‘‘ کو بھی تیار نہیں۔آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی راہ بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔
پارلیمان سے مطلوب تعاون نہ ملنے کی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت صدر مملکت کے ذریعے سپریم کورٹ کے روبرو یہ استدعا لے کر چلی گئی کہ وہ مارچ میں ہونے والے انتخابات کے دوران ووٹوں کی خرید وفروخت کے تدارک کا بندوبت کرے۔سپریم کورٹ سے ’’خیر‘‘ کی اُمید رکھتے ہوئے ایک صدارتی آڈیننس بھی جاری ہوچکا ہے۔سپریم کورٹ نے ’’کھلے‘‘ طریقہ کار کی ہدایت دے دی تو یہ روبہ عمل آجائے گا۔اپنا فیصلہ سنانے سے قبل مگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے رائے طلب کرنا بھی ضروری سمجھا۔ الیکشن کمیشن نے مؤدبانہ انداز میں آرٹیکل 226کا حوالہ دیا۔مصررہا کہ اس کے ہوتے ہوئے ’’کھلا‘‘ انتخاب ممکن نہیںہے۔
الیکشن کمیشن نے سینٹ کے آئندہ انتخاب کی بابت سپریم کورٹ کے روبرو جو مؤقف اختیار کیا اس نے اسلام آباد میں ’’سازش‘‘ ڈھونڈتے کھوجیوں کو متحرک بناڈالا۔ اس ضمن میں ہوئی ’’تحقیق‘‘ ابھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی تھی کہ ڈسکہ کا ضمنی انتخاب آگیا۔ گزشتہ جمعہ کی رات گئے تک منظر عام پر آئے نتائج کے مطابق نوازشریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ یہ نشست جیت رہی تھی۔ڈسکہ میں تاہم اس کے بعد ’’دھند‘‘ چھاگئی۔23پولنگ اسٹیشن اور ان کے نتائج اس دھند میں غائب ہوگئے۔’’دھند‘‘ چٹھی تو اطلاع آئی کہ مذکورہ اسٹیشنوں پر 80فی صد سے زائد ووٹ پڑے ہیں۔رائے دہندگان کی اکثریت نے بالآخر بازی تحریک انصاف کے حق میں پلٹ دی ہے۔اس اطلاع نے مسلم لیگ (نون) کو دھاندلی کی دہائی مچانے کو مجبور کردیا۔اس کی جانب سے ہوا واویلا کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنی وقعت کھودیتا۔ہفتے کا سورج طلوع ہونے سے قبل مگر الیکشن کمیشن نے ایک پریس ریلیز جاری کردی۔ اس کے ذریعے دھند میں غائب ہوئے پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج ’’مشکوک‘‘ بنادئیے گئے۔ بات اگرچہ نتائج تک ہی محدود نہیں رہی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہوئی پریس ریلیز پنجاب انتظامیہ اور پولیس کے کردار کی بابت بھی سنجیدہ سوالات اُٹھارہی ہے۔
کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ اسلام آباد میں مقیم اقتدار کے کھیل پر نگاہ رکھنے کے عادی افراد خبروں کو As it isلینے کو تیار نہیں ہوتے۔ہمارے ہاں چیزوں کو معمول کے مطابق دیکھنے کی روایت موجود ہوتی تو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے دیا جواب ایک تحریری آئین کے آرٹیکل 226کی موجودگی میں ہرگز حیران کن نہیں ہونا چاہیے تھا۔ڈسکہ میں نازل ہوئی ’’دھند‘‘ کی وجہ سے اُٹھے سوال بھی حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہئیں تھے۔تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ اپنے ہاں نظر آئے سیاسی بندوبست کے بارے میں ہم کئی دہائیوں سے ’’کوئی تو ہے‘‘ جو اسے ’’چلا رہا ہے‘‘ والے گماںمیں مبتلا ہوچکے ہیں۔صحت مند معاشروں میں نام نہاد پڑھے لکھے افراد کو ایسی خوش یا بدگمانی کی بابت فکرمند ہونا چاہیے۔ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت مگر یہ جاننے کو تل گئی ہے کہ الیکشن کمیشن ’’کس کے اشارے‘‘ پر خود کو ’’خودمختار‘‘ ثابت کرنے کو ’’ڈٹ‘‘ گیا ہے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے ’’رشتہ داروں‘‘ کا کھوج بھی لگایا جارہا ہے۔اس حوالے سے ’’رشتہ داریوں‘‘ کی تفصیل سے میں ذاتی طورپر بخوبی آگاہ ہوں۔Dotسے Dotملائوں تو انتہائی چسکہ بھری کہانی گھڑسکتا ہوں۔جی مگر اس جانب مائل نہیں ہورہا۔ ’’عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے‘‘۔

مزیدخبریں