پاکستان میں ادبی وثقافتی  تقریبات اور جوش ملیح آبادی

وطن عزیز کے سکولوں میں مہمان خصوصی عموماً لکھاری‘ شعراء اور ادباء مدعو کئے جاتے  ہیں بچوں سے تعارف کروایا جاتا زندہ و جاوید رہبروں اور رہنماؤں سے ملاقات ہوتی۔ دل میں خواہش اور ہمک پیدا ہوتی ہے کہ علم کا سفر کیا ہے؟ اس کے درجات وفضائل کیا ہیں؟ کتابیں لکھنے والے ماروائی مخلوق نہیں بلکہ پھر بچوں جیسے انسان ہی نہیں جو جی بھر کے ہمیں وقت دیتے ہمارے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔  معصوم باتوں پر قہقے لگانے اور ایک ہی فقرے میں مستقبل کو باندھ کر رکھ دیتے۔ آہستہ آہستہ یہ جگہ بیورو کریٹس نے لینا شروع کی۔ ڈی سی صاحب کی بیگمات بھی مستقید ہوئیں اور پھر یہ وقت آیا کہ وزراء ‘ سیاستدان اور حکومتی مشینری کے پرزے اور پھر قبضہ گروپ ان اہم کرسیوں پر قبضہ نشین ہوئے جنہیں تعلیم وتربیت اور بچوں کی ذہنی نشونما سے زیادہ اپنی تشہیر اور کاروباری کی لت پڑی تھی۔ شخصیت کے معمار پس پشت  اور گھروں اور پلازوں کے بلڈر سامنے آگئے۔ تہذیب ‘ ادب ثقافت سب عمارتوں میں چن دئیے گئے۔ بچے کیا خاک مہذب‘ باادب اور ثقافت پرست ہوتے… ملکی سطح پر پزیرائی کا فقدان بھی دیکھنے میں آیا، چند ایک ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے علاوہ کسی بھی شاعر مفکر یا فلاسفر کا دن کسی بھی ادارے میں منانے والے بھی چند ایک ہی لوگ ہیں اب گلوبل ڈے منانے کا رواج ہے۔ علاقائی اور ملکی تہوار حافظے سے ہی اتر چکے ہیں اور اگر کہیں منا ہی لیئے جائیں تو کوریج سیاستدانوں اور کرنٹ آفیئر کو ہی ملتی ہے۔ کاروباری لوگ بھی اب کسی ادبی‘ ثقافتی اور علمی پروگرام  کی تشہیر سے کتراتے ہیں۔ فیض‘ فراز ‘ جالب‘ جوش تو پھر یاد کرلیے جاتے ہیں خواتین شعراء اور ادباء پر قلم اٹھانا اب بھی وقت کا ضیاع ہی سمجھا جاتا ہے۔ ادبی ادارے اور فنون لطیفہ کے سرکاری دفاتر چند ایک مخصوص شرکاء مخصوص صدارت اور مخصوص اظہار خیال ‘ مخصوص نظامت اور وہی اظہار تشکر کے علاوہ علم کی اس ترویج کو بدلنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جوش ملیح آبادی کا یوم پیدائش کسی یونیورسٹی کے ہال میں منایا جائے، کسی سکول میں بچوں کو مدعو کیا جائے کہ وہ حضرت جوش کی شخصیت فن اور شاعری پر گفتگو کریں۔ نظمیں لکھیں‘ بیت بازی ہو اور انہیں کے نام سے منسوب تحائف اور کتابیں انعام میں عطا کی جائیں۔  اس سے قبل جوش صاحب پر ایک بھرپور مضمون میں نے ایک قومی اخبار کیلئے لکھا جسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی اور مجھے بہت سے برقی پیغام ملے ‘ ای میل پر لوگوں نے یادوں کی بارات کی بات کی ۔ برقی خطوط لکھنے والوں میں بچے اور نوجوان بھی تھے ۔تقریبا پانچ برس بعد آکسفورڈ لیٹریچر  فیسٹیول نے حضرت جوش ملیح آبادی پر بھرپور بٹیھک رکھی جسے عزیزم مجاہد بریلوی نے خوبصورتی سے نبھائی مگر منتظمین ہی میں سے ایک نوجوان نے سوال کیا یہ دوکرسیاں تو گفتگو کرنے والوں کی ہیں۔ خود جوش صاحب کو آپ کہاں بٹھائیں گے ۔کرسیوں کی ترتیب کیا ہوگی؟ یہ واقعہ 2019ء کا ہے دوران پروگرام بزرگ خطیب نے فقط ان کے مذہبی رجحان کا ذکر کیا جیسے جوش صاحب ایک آزاد منش علی گڑھ1912 یا لکھنو کی تہذیب اور سینٹ پیٹرز کالج آگرہ سے فارغ التحصیل ۔ شعر گوئی ‘ علم اور انسان دوستی سے لیس ایک مفکر نہیں بلکہ ایک مذہبی شخصیت بھی ہیں۔ جوش صاحب کی کتاب( یادوں کی بارات) ان کی اپنی زندگی تحریر کر دہ مستند تصنیف ہے جہاں انہوں نے اپنی بسم اللہ کے احوال سے شروع کر تے ہوئے اپنے فارسی‘ اردو اور انگریزی کے معلم تک کا ذکر کیا ہے  حالات زندگی میں صبح اٹھنے اور فطری ماحول کا ذکر کیا ہے ۔ اپنے کھیل ‘ پتنگ بازی ‘ ٹینس اور فٹ بال اور آنکھ مچولی ‘ داغ اور مہر کے دیوان کو اپنے کرتے میں سجانا ،الماریوں میں شعراء کے دیوان سجانا اپنے ڈرپوک ہونے کا برملا ذکر کرنے والے جوش ملیح آبادی اپنے معاشقوں پر اتراتے بھی رہے
ہوئے جوان تو مرنے گئے حسینوں پر
ہمیں توموت ہی آئی شباب کے بدلے
فرماتے ہیں میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ ہر چند میرے بال سفید ہو چکے ہیں مگر میرا نامہ اعمال الحمداللہ ابھی تک سیاہ ہے (یادوں کی بارات صفحہ  سولہ) علم طلبی نے مجھ سے گھر چھڑایا ۔ ستاروں کے مشاہدے سے میرے تفکر کی ابتداء ہوئی فکر کا میدان وسیع ہوا نظام شمسی پر نظر پڑی تو لگن لگ گئی کہ ناپ ‘ تول‘ جانچ پڑتال کی گرہیں کھلنے لگیں تحقیق کا شعلہ بھی بھڑکا۔ غور و فکر کی منازل بھی طے کیں ۔برسوں پا پڑیلے ۔ ہندو مسلم ‘  ‘ زرتشی، بدھی اور عیسائی علماء کے سامنے کاسہ گدا ئی بڑھایا۔ علم کی بھیک مانگی آگاہی کے آستانوں پر ناک رگڑی اس کے بعد مدعیان معرفت یعنی صوفیاء ومشائخ کے دروازے کھٹکھٹائے۔ جوتیاں سیدھی کیں اور جند وجدانی فریب کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا ۔میں جاہل نرا جاہل اور بے پناہ جاہل ہوں قومی تحریک سے وابستگی 1918 میں حاصل ہوئی ۔مولانا ابوالکلام نے گاندھی جی اور حسرت موہانی کی ہمراہی میں تحریک میں بھی شرکت کی ۔کہتے ہیں منکرات کو لوگ شراب سے مختص کئے ہوئے ہیں (یادوں کی بارات صفحہ 194)  حالانکہ منکر کے دائر ے میں دنیا کی ہر وہ چیز داخل ہے جو خون میں پہنچان اور دل میں نشاط کا طوفان پیدا کرتی ہے۔ بچے کو پیار کرنا ‘ چاندنی سے لطف اٹھانا ‘ پھول سونگھنا ‘ پیٹ بھر کر کھانا کھانا‘ یاروں کی صحبت میں بیٹھنا‘ کھیل کھیلنا ‘عبادت کرنا ‘ موسیقی سننا‘ تماشے دیکھنا اور رو دینا  منکر ہی کی شاخیں ہیں۔ اداروں کو قفل لگانے اشیائے ضرورت وخوردونوش مفقود نہیں ہوسکتے۔ کوچہ خوہاں( کوٹھے)  طوائفوں کے اڈے اور مہ خانے ایک محلے  سے نکال کر دوسرے محلے میں آباد کرنا اسی نوعیت کی حمایت ہے کہ کہیں  پھوڑے کو گھٹنے پر منتقل فرما کر  اس بات کا کہ  تعین کرنا  پھوڑا باقی نہیں رہا۔ اداروں کو بغاوت کرنے سے قبل ہی حکومت کا فرض ہے کہ انکا سائیٹفک بندوبست کر دیا جائے اناڑیوں کے ہاتھ کی کشیدہ شراب یعنی کچھ اسپرٹ پی پی کر لوگ جرم پر اتر آئینگے۔گیارہ برس کی عمر میں نکاح ہوا اور نوبرس کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دئیے تعجب کی بات ہرگز نہیں کیوں کہ جوش صاحب کے والد شاعر‘ دادا‘ شاعر‘ بڑی پھوپھی  شاعر دو سوتیلے چچا شاعر ہوں‘ ماموں شاعر ہوں اور دادی مرزا غالب کی قرابت دار ہو سارے کا سارا ماحول ادب علم ‘ فلسفہ اور آگہی سے بھرپور ہو جوش صاحب کا شاعر ہونا عجیب نہیں تھا پھر بھی والد کی طرف سے شعر کہنے پر پابندی لگا دی گئی کیا حماقت ہے جوش صاحب باز نہیں آئے۔
مجال ترک محبت نہ اک بار ہوئی
خیال ترک محبت تو باربار آیا
ایک درد ناک واقعے کے بعد جوش صاحب کے والد نے شعر کہنے کی اجازت دے دی اور پھر باقاعدہ اصلاح بھی دی پہلا  مشاعرے میں پڑھ جانے والا شعر
اے نسیم صبح کے جھوکو یہ تم نے کیا کیا
میرے مست خواب کی زلفین پریشان ہوئیں
جوش ملیح آبادی کے بارے میں پہلی مرتبہ تبصر ہ 1921ء میں  میٹھو پریس میںچھایا، بادہ خواری کا آ غاز 1918 میں سردار مہابر سنگھ کی دعوت ڈھول تواتر میں کیا۔ ہندوستان کے تہذیبی ومعاشرتی حالات کے بارے میں کہتے ہیں کہ میری جوانی کے سالوں میں ہندوستان خالص مشرقی  نیم مشرقی اور مغربی ان تین گروہوں میں بنا ہوا تھا ہر چند سر سید گزیدہ انگریزی خوابوں میں پرستاری کا شوق بڑھ رہا تھا مگر ان کی عورتیں سخت ہندوستانی تھیں اور کالا پانی( شراب )پینے والوں سے شدید نفرت کرتی تھیں پردے کی سخت پابند تٓھیں۔قارئین: محترم جوش صاحب سے میری روحانی وابستگی وشاعرانہ ہم قلمی ضرور ہے ان کے نواسے اور پوتی سے ان کی بو آتی ہے 
غالب ندیم دوست سے آئی ہے بوئے دوست ۔آزادی کے بعد کے حالات لکھتے ہیں  شہر ایک قیصد الماش( غریب )کثیر ال( بہت سے بچوں والا )بوڑھے کی صورت وادی غربت میں ٹھوکریں کھا رہا وہ پاکستان آکر ایک معمولی سے تنخواہ پر زندگی بسر کررہا تھا لیکن اس جرم پر ملازمت اور دیگر وسائل سے محروم کر دیا گیا ہے وہ عزت نفس کے مرض میں مبتلا ہے کسی کے اقتدار کے سامنے سر نہیں جھکایا وہ اپنے ضمیر اور قلم کو فروخت نہیں کرتا ہے اسے اپنے آبائی وطن ہندوستان سے نفرت نہیں وہ روئے زمین کے تمام باشندوں کو وحدت کی زنجیر میں ایک مستحکم اکامی اور آفاقی ریاست بنانے کے شیطانی خواب دیکھتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن