آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کا معاہدہ طے پا گیا ،اس پر خوشی یا فکر مندی ظاہر کی جائے تو یہ جلد بازی ہو گی،اس کے فوائد اور خدشات کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک کے اندر اتنے واقعات تیزی سے رونما ء ہوتے ہے کہ کسی چیز کی اہمیت باقی نہیں رہی .بڑی خبر آتی ہے ،ابھی اسے سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہوتی ہے کہ کوئی نیا واقعہ حادثہ،بیان سامنے آ جاتا ہے ،یہ اتنی سرعت سے ہو رہا ہے کہ بہت سے سنگین معاملات چھپ جاتے ہیں ،اس سے بھی ذیادہ خطرناک عنصر یہ ہے اہم اقتصادی ،معاشی ایشوز پر عوام کی زبان میں بات کرنے والے موجود نہیں ،خواص کی زبان انگریزی ہے ،اگرچہ ان کی اکژیت کو بھی معاشی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ،ان سے ’’پیٹس‘‘ کی دستیابی یا ان کی خوبیوں پر سوال کیا جائے تو زبان رکنے میں نہیں آتی مگرپوچھا جائے کہ پی ایس ڈی پی کیا ہوتا ہے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ،عوام کی اکثریت ترقی کو مہنگائی کی کسوٹی پر ہی پرکھتی ہے ، اکانومی کو عوام کی زبان میں بیان کرنے والے موجود نہیں،اگر ہیں تو ان کی سنتا کوئی نہیں ،اخبارات ہوں یا نیوز ٹی وی بس سیاست چھائی ہوئی ہیں،کسی محفل میں کسی نے کسی کے کان میں کوئی بات کہہ دی تو اس پرگھنٹوں چینلز پر بحث سماعت کی جا سکتی ہے ،یا صفحات کالے ہو سکتے ہیں ،اگر کچھ نہیں ملتا تو وہ اکنامک ایشوز پر عوامی زبان میں کوئی سنجید گی نہ ٹی وی پر ملتی ہے اور نہ اخبارات میں دستیاب ہے،آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی خبر بھی بس ایک دن چلی ،کچھ ’’ چوں چوں چاں چاں‘‘ ہوئی ،تھوڑا بہت مبارک سلامت کا شور آٹھا اور بس پھر وہی گرد آلود سیاست کا شور شرابہ ،خاک نشیں اپنی بساعت کے مطابق اکنامک ایشوز پر روشی ڈالنے کا بھاری پتھر آٹھانے کے لئے کوشاں رہتا ہے،مگر اس وقت خاصی مایوسی ہوتی ہے جب فیس بک پڑھنے والوں کی تعداد چند درجن سے نہیں بڑھتی جبکہ سیاست پر لکھنے یا بولنے والے بہت توجہ پاتے ہیں ،خیر اس پر پھر کبھی ضرور بات ہو گی ،آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام 10ماہ پہلے معطل ہو گیا تھا ،یہ 6ارب ڈالر کا پیکج ہے جو پروگرام میں طے پانے والی شرائط پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط ہے ، یہ تین سال سے ذیادہ عرصہ پر محیط ہے ، پروگرام کے اندر ہر چند ماہ گذرنے کے بعد ریویو ہوتا ہے اور جس میں پیشرفت کے اطمینان بخش ہونے کی صورت میں فنڈ کا مشن اپنی رپورٹ سفارشات کے ساتھ بورڈ کے سامنے رکھتا ہے جو قرض کی نئی قسط جاری کرنے کی منظوری دیتا ہے ، دس ماہ پہلے آئی ایم ایف کا پروگرام بھی شرائط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے غیر اعلانیہ معطل ہوا تھا،دوسرا ریویو اسلام آباد میں مکمل ہوا تاہم مشن نے اپنی رپورٹ بورڈ کے سامنے نہیںرکھی تھی جس کی وجہ سے قرض کی قسط جاری نہ ہو سکی ،گذرے ہوئے دس ماہ میں حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کو رام کرنے کے لئے توانائی سیکٹر سمیت بہت سے شعبوں میں لاگت کو عوام کی جانب منتقل کرنے کے اقدامات کئے ہیں،اب جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے مشن کی رپورٹ بورڈ کے سامنے پیش کر نے کا اعلان کر دیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ اس کے کچھ مثبت پہلوؤں کو بھی دیکھا جائے، اس سے سب سے بڑا فائدہ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کی بہتری کی صورت میں نکلے گا ،یہ چیز ہمیشہ مد نظر رکھا چاہئے کہ ملک کی ترقیاتی ضروریات بہت ذیادہ ہیں اور ان کے لئے سرمایہ کی کمی ہے ،پاکستان جو تین بڑے ڈیمز بنا رہا ہے ان کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے ،ملک کی کریڈٹ ریٹنگ اچھی ہونے سے راستہ پیدا ہو گا کہ ملک کیپیٹل کی عالمی مارکیٹ سے پیسے کم شرح سود پر اٹھا سکے گا ،دوسرا بڑا فائدہ عالمی بینک،اے ڈی بی کے ساتھ پالیسی لونز کی بحالی کی شکل میں نکلے گا ،ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بلڈ کرنے میں مدد ملے گی ،اب کچھ ،عالمی مالیاتی ادارے کے بیان میں قرضوں کا بوجھ برداشت کرنے ذکر ملتا ہے ،اس لائن کے اندر کیا پنہاں ہے؟ ظاہر ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ بتا رہا ہے کہ ملک کو اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا ،بورڈ کے اجلاس کے بعد ایک ڈاکومینٹ جاری ہو گا جس سے معلوم ہو سکے گا کہ حکومت نے مذید کیا وعدے کئے ہیں ،اس سال ایف بی آ ر ریونیو کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا ،اس ہدف میں شارٹ فال ہو گا ،اس کا بوجھ آئندہ مالی سال میں جائے گا ،ایسا کہا جا رہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا ہدف 6ہزار ارب روپے سے ذائد کا رکھا جا رہا ہے جو کم از کم 21فی صد کی گروتھ کا متقاضی ہو گا ،بہت اچھا ہو گا کہ ایسا ہو جائے،مگر جب ملک میں مذیدٹیکسیشن ہو گی،یا موجودہ ٹیکس گزاروں پر مذید بوجھ ڈالا جائے گا تو اس کا اثر گروتھ پرکیا ہو گا یا گرانی کس حد پر جائے گی ، یہ سولات پیدا ہونا فطری ہیں ،ایسا نہیںہونا چاہئے کہ دو چار سال کے بعد آنے والے الزام لگاتے پھریں کہ اپنا وقت تو پورا کر گئے ہمارے لئے مصیبت چھوڑ گئے اورماضی کے قرضے ادا کرنے کے لئے ہمیں نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں،اس طرح یہ منحوس چکر کبھی نہیں ختم ہو نے والا ہے ،حکومت کو سب سے پہلے اب نئے ٹیکس گزار تلاش کرنا چاہئے جب تک ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو ٹھیک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک رسمی معیشت اور عوام دونوں مشکل میں رہیںگے ،آئندہ دن بھی سخت ہیں اور آئندہ کا مالی سال بھی سختی ہی میںگذارے گا حکومت کے پاس کچھ نیا کر دکھانے کے لئے ابھی کوئی اچھوتا آئیڈیا نہیں ہے ،بس یہی ہمارا بنیادی کمزوری ہے ہم کسی بھی معاملہ میں دہائیوں پرانے طریقے آزما رہے ہیں اور مار کھا رہے ،ایک شکست کے بعد دوسری کے لئے لئے جتن کرنے لگتے ہیں ۔
اچھوتا آئیڈیا
Feb 23, 2021