ابتداء سے ہی سولہ سنگھار عورت سے منسوب چلے آ رہے ہیں۔ قلوپطرہ بھی سولہ سنگھار کرتی تھی جس کے حُسن کی مثال آجتک دی جاتی ہے۔ یہ سولہ سنگھار آج کل سو سنگھار بن چکے ہیں۔ کاسمیٹکس کی دنیا نے عورتوں کی دُکھتی رگ سے بہت کھایا کمایا ہے۔ آجکل شہر تو شہر، دُور دراز گائوں میں بھی میک اپ کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ گائوں کی عورتیں میک اپ کی تقریباًَ ہر چیز استعمال کرتی ہیں۔ گھریلو ملازمائیں میک اپ کی تمام چیزیں استعمال کر تی ہیں۔ ہر عورت چاہے نوعمر ہو، جوان ہو، ادھیڑ عمر یا بوڑھی، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ ، امیر ہو یا غریب، شہری ہو یا دیہاتی سب میک اپ کی اشیاء استعمال کر تی ہیں۔ گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے جگہ جگہ ، گلی نکڑ پر پارلرز کُھل گئے ہیں۔ لیکن اِس وقت ہزاروں غیر تربیت یافتہ عورتیں ہائیڈرا فیشل کے نام پر پانچ ہزار روپے بھی بٹور رہی ہیں اور عورتوں کے چہرے بھی تباہ کر رہی ہیں۔ ہائیڈرا فیشل میں بمشکل پانچ سو روپے کی کریمیں استعمال ہو تی ہیں لیکن اس کے پانچ ہزار وصول کئے جاتے ہیں۔ پارٹی میک اپ پر بمشکل پانچ سو روپے کا میک اپ استعمال ہو جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی مہنگا ہ۔ یہاں تک کہ برائیڈل میک اپ جتنا مرضی مہنگا میک اپ ہو، اُس کا صرف ایک ایک برش ہی چہرے پر لگایا جاتا ہے مگر بیوٹیشن اُس پانچ سو ہزار کے کاسمیٹکس کے پانچ ہزار سے دو لاکھ تک لے لیتی ہے۔ ہر دلہن کو پچیس ہزار سے لیکر دو لاکھ روپے تک ادا کر نے پڑتے ہیں۔ اس کا بھی کو ئی قانون ہو ناچاہیے لیکن پاکستان میں اس کا کوئی قانون نہیں ہے۔ رنگ گورا کرنے کے نام پر کئی کیمیائی اجزاء والی غیر معیاری کریمیں لگا کر عورتوں کے چہرے تباہ کئیے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں بال کلر کرانے کے انتہائی مُضر شیمپو،کنڈیشنرز، ڈائی پروڈیکٹس عام فروخت ہر رہے ہیں۔ پارلرز خود اپنے پروڈیکٹس ہزاروں روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ بال گھنے اور لمبے ہو تے ہیں۔ چہرے پر شائنگ آتی ہے۔ یہ پروڈیکٹس جو پارلرز پر اپنے کسٹمرز کو مہنگے داموں فروخت کئیے جاتے ہیں۔ کسی لیبارٹری میں ٹیسٹ نہیںہو تے۔ سکن کی سب سے زیادہ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ الرجی کے ساتھ یہ مضر صحت پروڈیکٹس کینسر کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ پورا مافیا ہے کوئی اُنکے گلے میں پھندا نہیں ڈالتا۔ پاکستان سٹینڈرڈرز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) نے پچاس سے زائد بڑے سٹوروں پر چھاپے مارے، جہاں پر غیر معیاری کاسمیکٹس پروڈیکٹس بک رہی تھیں، جن کے لیبارٹری تجزیہ کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ان کاسمیٹکس میںمرکری، سکہ، تانبا اور مضر صحت اور غیر معیاری کیمیائی اجزاء شامل تھے۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس سلسلہ میں زبردست نوٹس لیا اور 20ستمبر 2020ء کو حکومت پنجاب نے ’پنجاب ڈرگ امینڈمینٹ بل 2020 ‘ پاس کیا۔ راجہ بشارت ، وزیر قانون نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے مسودہ برائے ’’پنجاب کاسمیٹکس کنٹرول بل 2021 ئ‘‘ تیار کیا ہے جس کو جلد اسمبلی سے منظور کروا کر لاگو کیا جائے گا۔ جسکے تحت تمام معیاری کاسمیٹکس لائنس یافتہ سٹوروں پر ہی فروخت ہوں گے اور غیر معیاری کاسمیٹکس کی تیاری اور فروخت اور استعمال کرنے والے پارلزکو اس قانون کے تحت کڑی سزائیں دی جائیں گی۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے ایک اعلیٰ اور انسانی قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس قانون سے یہ سارا مافیا گرفت میں آ ئے گا۔ اس لئے اس قانون سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہر طبقہ فکر کی خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔
٭…٭…٭