مہنگائی اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں 

آج کل ہر پاکستانی مہنگائی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی انسان اشیاء خوردونوش کھاتے تھے اب ضروریات زندگی کی چیزیں انسانوں کو کھا رہی ہیں چند سال پہلے تک چیزوں کی قیمتوں میں سالانہ بجٹ کے ساتھ پانچ سے دس فیصد تک اضافہ ہوتا تھا اب روزانہ کا سورج نئی قیمتوں سے طلوع ہوتا ہے اور قیمتوں میں اضافہ دو سال کے اندر پانچ سے دس فیصد نہیں سو سے چار سو فیصد تک ہوچکا ہے جس سے پوری قوم ذہنی مریض بن کر رہ گئی ہے۔ خوراک، ادویات، لباس اور ٹرانسپورٹ سے لے کر رہائش اور آسائش تک سب پاکستانی قوم کی قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے لیکن تاجر اور سرکاری ملازمت پیشہ افراد امیر سے امیر تک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیراعظم کی دس لاکھ ٹائیگر فورس کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ مارکیٹ کمیٹیاں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور حکومتی ضلعی دفاتر جنہوں نے مہنگائی پر قابو پانا ہوتا ہے بظاہر مہنگائی اْن پر قابو پاچکی ہے۔حکومت کا چیک اینڈ بیلنس اور قیمتوں کا تعین ایک کریانہ شاپ کی صرف 40 اشیاء تک محدود ہے جن میں آٹا، چینی، دال، چاول اور گھی وغیرہ شامل ہیں لیکن ایک کریانہ شاپ میں کم و بیش دو ہزار کے قریب اشیاء فروخت ہوتی ہیں جن کی قیمتوں کا کوئی تعین سرکاری سطح پر کہیں موجود نہیں کپڑے کا دکاندار ہو یا سیمنٹ ، سریا، بجری کا، کاسمیٹکس ہوں یا سینٹری، پلاسٹک کی اشیاء ہوں یا لوہے سٹیل کی، ماربل آئٹم ہوں یا مٹی اور ریت، لکڑی کا فرنیچر ہو یا پینٹ ہارڈویئر کی دکانیں کہیں پر سرکاری کوئی قانون ہی موجود نہیں جو پوچھ سکے کہ اْنہوں نے اپنی آئٹم کی قیمت فروخت کا تعین کیسے اور کس پیمانے سے کیا ہے کس حساب سے وہ مطلوبہ چیز کی اپنی قیمت مقرر کر رہے ہیں۔ہر دکاندار نے ایک ہی کام پکڑا ہوا ہے کہ سارا دن گاہکوں کے سامنے حکومت کو بْرا بھلا کہہ کر مْنہ مانگے داموں چیزیں فروخت کرتے ہیں کہ کل ریٹ اور تھا آج مزید بڑھ چکا ہے کوئی دکاندار اپنی خریدی گئی چیز کا بل دکھانے کو بھی تیار نہیں ہوتا جس سے پتہ چلے کہ واقعی ہی گزشتہ ہفتے اِس نے یہ چیز اتنے میں خریدی تھی اور آج اِسے اور قیمت پر ملی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اشیاء خْوردونوش کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کی روزمرہ استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتوں اور کوالٹی کے تعین کا مکمل چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے ہر آئٹم پر مینوفریکچر کا سٹیکر لگا ہوتا ہے جس میں درج ہوتا ہے کہ اْس نے کس کوالٹی کا کون سا مٹیریل استعمال کیا ہے اْس کا منافع کتنا ہے ڈیلر تک یہ چیز کتنے میں پہنچی ہے اور ڈیلر کے منافع کے بعد ریٹیلر شاپ پر اِس چیز کی اِتنی قیمت ہے۔ ان تمام معلومات کا جاننا ہر صارف کا بنیادی اور قانونی حق ہے جو دنیا کے متعدد ممالک صارفین کو فراہم کرتے ہیں لیکن پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے صرف چالیس کریانہ اشیاء خْوردونوش اور سبزی فروٹ کی سرکاری ریٹ لسٹیں موجود ہیں تو اْس پر بھی عملدرآمد سو میں سے دس فیصد دکھائی دیتا ہے۔ قیمتوں اور کوالٹی کے چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں موجود خرابیوں کو درست کرنے کی بجائے مزید نظام پر نظام بنا دیئے جاتے ہیں جس سے صارف کے حقوق میں کوئی بہتری کسی سطح پر کہیں ہوتی دکھائی نہیں دیتی بظاہر صارفین حقوق کی عدالتیں بھی کہیں موجود ہیں لیکن پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں لْٹے صارف اْن عدالتوں تک جانے کیلئے کاغذات کے پیسے وکلاء کی فیسیں اور ڈھیر سارا وقت کہاں سے لائیں یہ تو حکومتی اداروں کا کام ہے کہ وہ خوردونوش کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں کا تعین بھی کریں اور متعین کردہ قیمتوں پر صارفین کو اشیاء کی فراہمی یقینی بنائیں شاید کہیں پر اْتنی مہنگائی نہیں ہے جتنی تاجر طبقے اور عام دکاندار نے بنا رکھی ہے۔ تحصیل اور اضلاع لیول کے چھوٹے سٹاکسٹ کارٹل مافیا اپنے ڈپٹی کمشنر سے زیادہ طاقتور بنے بیٹھے ہیں۔حکومت کو تمام بازاروں پر ایک مربوط اور مضبوط نظام بنانے اور لانے کی ضرورت ہے۔ بازاروں میں فروخت ہونے والی تمام اشیاء کی قیمتوں کے تعین کا حکومت کے پاس کوئی نظام ہی نہیں ہے اور جو نظام موجود ہے وہ انتہائی فرسودہ اور ناقص ہو چکا ہے پرائس کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری آئی پی ڈبلیو ایم ڈیپارٹمنٹ کی ہے اور کسی ضلع میں اْن کا سٹاف ہی تین سے چار نفوس پر مشتمل ہوتا ہے پرائس چیکنگ کے علاوہ یہ محکمہ مساجد، مدرسے ، سوسائٹیز اور انڈسٹری بھی رجسٹرڈ کرتا ہے تو پرایس چیکنگ کس وقت کریگا اسکے بعد صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے پرائس چیکنگ کیلئے ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ، تحصیلدار ، نائب تحصیلدار ، محکمہ زراعت محکمہ فوڈ اور چیف آفیسر بلدیہ سمیت محکمہ لائیوسٹاک کے ایک ایک آفیسر کو پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے ہوئے ہیں لیکن کسی ضلع کی بیس سے تیس لاکھ آبادی کے دکانداروں کو یہ ایک دو درجن آفیسر کیسے چیک کر سکتے ہیں جبکہ ان کے اپنے محکموں کی دیگر ذمہ داریاں بھی انکے فرائض میں شامل ہیں اْس پر تین تین گھنٹے کی روز کی سرکاری میٹنگز الگ وقت لے جاتیں اِس چیکنگ نظام کی مزید خرابی ان افسران کے پاس پرائس کنٹرول سٹاف اور سکیورٹی کا نہ ہونا ہے کسی نائب تحصیلدار کے پاس پرائس کنٹرول چیک کرنے کیلئے کوئی سرکاری گاڑی پٹرول عملہ یا محافظ موجود ہی نہیں خالی پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اختیارات سے کوئی نہتا پیدل نائب تحصیلدار کیسے سینکڑوں دکانداروں کے بازار میں چیکنگ کر سکتا ہے۔ ان تمام پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کو اپنی حفاظت کیلئے پولیس ساتھ لے جانے کا قانون تو موجود ہے لیکن پولیس ان کے ماتحت نہیں یہ اکثر تھانوں میں جاتے ہیں تو بروقت پولیس گاڑی یا عملہ میسر نہ ہونے پر ان کو کئی کئی گھنٹے تھانے میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑجاتا ہے اور اس دوران اِنہوں نے جس ملاوٹ کرنے والی جگہ پر چھاپہ مارنا ہو یا پرائس چیکنگ کرنی ہو وہاں تک اطلاع پہنچ جاتی ہے۔ حکومت جب تک خودساختہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدہ اور عملی اقدامات نہیں اْٹھائے گی مظلوم عوام ان دکاندار نما ڈاکوئوں کے ہاتھوں یونہی لْٹتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن