کشمیر اور جونا گڑھ…ہماری قومی غیرت کیلئے چیلنج

مشہور و معروف برطانوی تاریخ دان ایلیسٹیر لیمب نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے الحاق کی جس دستاویز کا ذکر کیا جاتا ہے‘ وہ بھارت میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ درحقیقت اس سارے معاملے کی بنیاد جعلسازی پر مبنی تھی جس کے ذریعے بھارت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ اس کے برعکس قیامِ پاکستان سے قبل آل جموں و کشمیر کانفرنس کے اجلاس 19جولائی 1947ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کرلی گئی تھی۔ غازیٔ ملت سردار محمد ابراہیم خان کے گھر ہونے والے اس اجلاس میں کشمیر اسمبلی کے 21منتخب ارکان میں سے 19ارکان موجود تھے‘ لہٰذا بلاخوف و تردد کہا جاسکتا ہے کہ یہ قرارداد کشمیری عوام کی بھارتی اکثریت کی قومی امنگوں کی ترجمان ہے۔ اس قرارداد کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کے ذریعے ہونا ابھی باقی ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اس میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ -27اکتوبر 1947ء کو بھارت نے پاکستان کی اس شہ رگ پر اپنے پنجے گاڑے تھے۔ علاوہ ازیں 9نومبر 1947ء وہ منحوس دن ہے جب بھارت نے جونا گڑھ ریاست پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا حالانکہ 15ستمبر 1947ء کو اس کے نواب مہابت خانجی ایک خود مختار سربراہِ ریاست کی حیثیت سے پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ ’’الحاق کی دستاویز‘‘ پر دستخط کرچکے تھے۔ ریاست جونا گڑھ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی پہلی ریاست بن گئی تھی اور جونا گڑھ میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا تھا۔ گاندھی‘ نہرو اور سردار پٹیل والیانِ ریاست کو دھونس دھمکی کے ذریعے مجبور کررہے تھے کہ بھارت سے الحاق کریں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو ہی یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اس متاعِ گم گشتہ کی عوام وخواص کو از سر نو یاد دہانی کروائی ہے۔ اس مقصد کے لئے 13ویں سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کی ایک توسیعی نشست بعنوان ’’کشمیر و جوناگڑھ سیشن‘‘ گزشتہ روز ایوانِ قائداعظمؒ، جوہر ٹائون‘ لاہور میں منعقد ہوئی۔نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے سرانجام دیے۔ تلاوت کی سعادت قاری خالد محمود نے حاصل کی جبکہ بارگاہِ رسالت مآبؐ میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا اعزاز حافظ محمد وارث سلطانی کو نصیب ہوا۔ ممتاز صحافی اور دانشور مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ہندوستان کبھی بھی ایک ملک نہیں رہا۔ یہ 562خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا جو ہندوستان کے کل رقبے کے 40فی صد رقبے پر قائم تھیں۔ ہندوستان کی کل آبادی کا 23فیصد ان ریاستوں میں بستا تھا۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان میں 25لاکھ افراد کا تعلق ریاست جوناگڑھ سے ہے جو بھارتی قبضے کے بعد ہجرت کرکے یہاں آن بسے تھے۔ ان افراد کو حق ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کیلئے اپنے نمائندوں کا آزادانہ انتخاب کرسکیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جونا گڑھ کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ حکومت پاکستان کو جوناگڑھ پر اپنے دعوے سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونا چاہیے اور اس مسئلے کو زندہ رکھنے کے اقدامات کرنے چاہئیں اور کسی شاہراہ یا عمارت کو جونا گڑھ سے منسوب کردینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے عوام کا حق خودارادیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ ان قراردادوں سے ہوتا ہے جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں تسلیم کرچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں متعین 9لاکھ سے زائد بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی عام طور پر بڑے مدھم لہجے میں گفتگو کرتے ہیں تاہم اس مرتبہ ان کا لب و لہجہ پرجوش سیاسی رہنمائوں جیسا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ جس طرح ہندو پریس نے 23مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قراردادِ لاہور کو مجذوب کی بڑقرار دیا تھا مگر وہ -14اگست 1947ء کو دنیا کی سب سے بڑے اسلامی مملکت کی صورت ظہور پذیر ہوگئی‘ اسی طرح بھارتی صدر‘ وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور آرمی چیف یاد رکھیں کہ 20فروری2021ء کو اِسی لاہور میں منعقدہ اس اجتماع میں لگنے والے نعرے ’’کشمیر بھی ہمارا ہے‘ جونا گڑھ بھی ہمارا ہے‘‘ مستقبل قریب میں ایک حقیقت بن کر سامنے آئیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کے ٹکڑے ہونے کی بنیاد رکھ دی ہے اور اس کی سرپرستی میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے غنڈے بھارت کو تمام غیر ہندو اقوام سے پاک کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ تمام صورتحال بھارت کی تقسیم پر منتج ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ جونا گڑھ کا مستقبل پاکستان سے جڑا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ پاکستان کا مستقبل بڑا ہی تابناک اور بڑا ہی محفوظ ہے۔ ہم محمود غزنوی‘ شہاب الدین غوری‘ شیر شاہ سوری‘ حضرت سید علی ہجویریؒ‘ حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ‘ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے وارث اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ و علامہ محمد اقبالؒ کے بیٹے بیٹیاں ہیں جو بھارت کو اِس خطے میں اندلس اور فلسطین کی تاریخ نہیں دھرانے دیں گے۔ وہ دن اب بہت زیادہ دور نہیں جب لال قلعہ پر پاکستان کا پرچم لہرائے گا اور نئی دہلی سے ریڈیو پاکستان نشر ہوگا۔ اُنہوں نے محترم مجید نظامی مرحوم‘ نوائے وقت گروپ اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی قومی خدمات پر اُنہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مؤرخ ریاست جونا گڑھ کے مسئلے کو از سر نو زندہ کرنے میں ان اداروں کا کردار تاریخ میں سنہری الفاظ میں رقم کرے گا۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی انتظامیہ کو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور ملک و قوم کی ترقی و سلامتی کے لئے دعا کرائی۔ بعدازاں حاضرین کی لنگر سے تواضع کی گئی۔ 
نشست سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس‘سینئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی‘ چیئرمین پی ایچ اے سید یاسر گیلانی اور نظریۂ پاکستان فورم آزاد جموں و کشمیر کے صدر مولانا محمد شفیع جوش نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ شاہد رشید نے اپنے خطاب میں حکومت پاکستان کی طرف سے -4اگست 2020ء کو پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے اور ریاست جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھانے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے سربراہ نواب محمد جہانگیر خان جی نے 10دسمبر 2020ء کو صاحبزادہ سلطان احمد علی کو جونا گڑھ کا نیا دیوان یعنی وزیراعظم مقرر کیا ہے جو انتہائی خوش آئند ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اس اقدام اور صاحبزادہ سلطان احمد علی کی حب الوطنی‘ قابلیت اور صلاحیتوں کے طفیل اب یہ مسئلہ عالمی سطح پر موثر انداز میں اجاگر ہوگا۔ اُنہوں نے اس ضمن میں انہیں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ریاست جونا گڑھ کے سربراہ اور دیوان (وزیراعظم) کو سرکاری پروٹوکول دیا جائے۔ اس موقع پر بیگم مہناز رفیع‘ بیگم خالدہ جمیل‘ بیگم صفیہ اسحق اور استاد حامد علی خان بھی موجود تھے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ بعنوان ’’ریاست جونا گڑھ … اہم حقائق‘‘ بھی حاضرین میں تقسیم کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن