مستقل روگ 

آئی ایم ایف نے اپنی ڈکٹیشن پر حرف بہ حرف عمل درآمد دیکھنے کے بعد پروگرام بحال کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف مطمئن ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات کئے ہیں‘ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین پر عملدرآمد کررہا ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافے‘ کارپوریٹ سیکٹر کا انکم ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کے وعدے پر پاکستان سے سٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے۔ کرونا کے دوران سٹیٹ بنک کی مانیٹری اور ایکسچینج پالیسی کا کردار نمایاں رہا۔ پچاس کروڑ ڈالر ملنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ حتمی فیصلہ ایگزیکٹو بورڈ کریگا۔ چھ ارب ڈالر قرض کے جائزہ امور پر مذاکرات مکمل ہو چکے گئے۔ توانائی شعبہ میں سبسڈیز کو کم کیا جائیگا۔ گزشتہ ڈھائی ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پانچ مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ چھٹی بار اضافے کی سمری وزیراعظم نے مسترد کردی۔ ملک بھر میں تحصیل کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں تھیں جنہیں ختم کرکے یہ کام ضلعی انتظامیہ کے سپرد کیا گیا ہے لیکن منافع خور عناصر بھلا کس کے قابو میں آتے ہیں۔ سمندر پار پاکستانی کارکنوں کی ترسیلات زرمبادلہ مسلسل آٹھویں مہینے دو ارب ڈالر سے زائد رہی ہیں۔ یہ اضافہ بنکنگ چینلز کی بہتر سہولتوں تک عام اور باآسانی رسائی اور حوالہ ہنڈی جیسے غیرقانونی ہتھکنڈوں کی مؤثر روک تھام کا نتیجہ بھی ہے۔ ملک میں سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی خوردبرد اور دھوکہ دہی کے واقعات عام رہے اس طرح بے اعتمادی بڑھتی گئی اور بے اعتمادی کے ماحول میں سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوئی۔ 
پاکستان نے آئی ایم ایف کی کئی شرائط پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے جن میں بجلی کی قیمت میں تین روپے 90 پیسے فی یونٹ اضافے‘ کارپوریٹ سیکٹر کا انکم ٹیکس استثنیٰ ختم کرکے 150 سے 200 ارب روپے جمع کرنے اخراجات کم کنے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات جیسے نکات بھی شامل ہیں۔ حکومت کو آئندہ بجٹ میں بجلی سبسڈیز میں مزید کمی کرنا ہوگی۔ حکومت نیپرا کی خودمختاری کیلئے قوانین تبدیل کر رہی ہے جبکہ سٹیٹ بنک کی خودمختاری کیلئے بھی قانون سازی کی جا رہی ہے۔ ہر وزیر خزانہ سے یہی سنا کہ اسے خزانہ خالی ملا ہے۔ قمر شعیب‘ ڈاکٹر مبشر حسن اور ڈاکٹر محبوب الحق جیسے لوگ اب کہاں؟ سیاسی جماعتیں اتنے بڑے ملک میں کوئی ماہروزیر خزانہ کیوں نہیں تلاش کرتیں۔ اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ کا سبب وزیراعظم کا سمدھی ہونا تھا۔ وہ عملاً نائب وزیراعظم تھے۔ ہمارا سارا زور چینی گندم دالیں امپورٹ کرنے پر ہے۔ آئل سبزیوں کے بیج بھی امپورٹ ہو رہے ہیں۔ کھاد کی بوری ڈھائی ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار میں مل رہی ہے۔ تمام شعبوں کو 1200 ارب کی سبسڈی دی۔ زراعت کیلئے 63 ارب کی سبسڈی رکھی ‘ ملا کچھ نہیں۔ کسان بارہ روپے یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہا ہے۔ کپاس کی پیداوار 56 لاکھ گانٹھیں جبکہ بھارت میں چار کروڑ گانٹھ ہے۔ ہم قرض یا خودانحصاری میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکے۔ حکومت ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے بالواسطہ ٹیکسوں پر ہی شب خون مارتی ہے۔ حکومت کا سارا زور محصولات بڑھانے پر ہے۔ ایک لٹر پٹرول پر حکومت 34 روپے ٹیکس لے رہی ہے۔ 
بجلی کے یونٹ کی قیمت میں حالیہ اضافوں کے بعد سولہ روپے سے تجاوز کرکے اس شرح کے قریب پہنچ جائیگی جو آئی ایم ای کی جانب سے تجویز کی گئی تھی۔ دیکھنا ہے کہ حکومت عوام پر مالی بوجھ بڑھانے میں کہاں تک جا سکتی ہے۔ سبزیوں کے بعد اب آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ صرف ایک ہفتے کے دوران 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 366 روپے تک اضافے کی اطلاعات ہیں۔ مہنگائی زندگیوں سے جڑا ایک مستقل روگ ہے۔ عوامی مسائل کا گرداب اراکین اسمبلی اور وزیروں کو کیوں نہیں دکھائی دے رہا۔ قانون کی حکمرانی ناتواں کیوں ہے۔ گندم کی سرکاری قیمت 1650 روپے فی من مقرر کی تھی تاہم حکومت سندھ نے یہ شرح دو ہزار روپے رکھی تھی۔ کسانوں نے سرکاری قیمت خرید دو ہزار روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کرنے کا تقاضا کیا تھا تاہم گندم ذخیرہ کرنے کا ہدف پورا کرنے کیلئے حکومت پنجاب نے 150 روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 1800 روپے فی من قیمت خرید مقرر کی ہے۔ گزشدہ دو سال کے دوران سمگلنگ اور منافع خور مافیا نے ساری صورتحال تباہ کرکے رکھ دی۔ آٹے کے نرخ چالیس روپے فی کلو سے بڑھ کر 80 روپے تک جا پہنچے۔ آئے دن نیا پٹرول بم تیار رہتا ہے۔ حکومت کے بقول صنعتی شعبہ بحالی کی راہ پر ہے۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن