بلاول کی پسپائی 

پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی بول چال‘ محاورے‘ تعلیمات اور طنزومزاح میں کرکٹ کی چھاپ نمایاں ہے۔ یہ کھیل قوم کی ’’سائیکی‘‘ میں حلول کر گیا ہے۔ عمران خان کو ورلڈکپ جیتے تین دہائیاں ہو گئی ہیں‘ لیکن ہنوز اسے کپتان کہا جاتا ہے۔ کیپٹن صفدر یہ کہہ کہہ کر ’’پھاوا‘‘ ہو گیا ہے کہ اصل کپتان تو وہ ہے‘ لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عزیزی بلاول کی کہہ مکرینوں کیلئے ہم نے بھی کرکٹ ’’ٹرمینالوجی‘‘ استعمال کی ہے۔ وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا استعمال کب اور کس نے شروع کیا‘ لیکن اس میدان میں جناب شیخ کے قدم آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہیں جب کسی سیاسی حریف کو لتاڑنا یا پھاڑنا ہو تو ’’وکٹ کے دونوں اطراف‘‘ کھیلنے کا الزام جڑ دیتے ہیں۔ جہاں تک ہماری محدود معلومات میں یہ جملہ توصیفی ہے۔ اس سے کھلاڑی کی قیادت اور قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہردلعزیز میڈیا ڈارلنگ وزیر اسے منافقت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ انکی دیکھا دیکھی وزیرخارجہ بھی اکثر یہی روش اختیار کرتے ہیں۔ حکومت نے سکھوں کے مقدس مقام کی جو تزئین و آرائش کی ہے اور انہیں ’’متھا ٹیکنے‘‘ کی جو سہولیات فراہم کی ہیں‘ قبلہ قریشی صاحب نے اسے عمران خان کی گگلی قرار دیا تھا۔ جوش خطابت میں وہ یہ بھول گئے کہ فاسٹ بائولر گگلی نہیں کراتے۔ ویسے بھی یہ DECEPTION کے مضمون میں استعمال ہوتی ہے۔
ذکر بلاول صاحب کا ہو رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ سخن گسترانہ بات کیسے ٹپک پڑی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ایسا بیان داغا ہے جس نے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا ہی نہیں نکالی۔ بلکہ غبارہ ہی پھاڑ دیا ہے۔ استعفے دینے سے تو وہ پہلے ہی منکر ہو چکے تھے۔ اب کہ ساری ’’چھائونی‘‘ ہی جلا ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہمیں تحریک عدم اعتماد لانی چاہئے۔ اور یہ کام حکومت کے اتحادیوں کو چائے کا کپ پلا کر کیا جا سکتا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ پہلے نمک میں تاثیر کے تذکرے ہوتے تھے‘ اب کے چائے سے چاہت کے پیدا کرنے کے اعجاز کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ کسی وزیراعظم کے خلاف آج تک تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکی۔ اب کے عزیزم کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے۔ جو انہونی کو ہونی کر دے گی۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو ایک اعتبار سے بھان متی کا کنبہ کہا جا سکتا ہے۔اس وقت دو جماعتوں نے حکومت کو سہارا دیا ہواہے۔ گجرات کے چودھریوں کی (ق) لیگ اور الطاف بھائی کی گمرگشتہ پارٹی ایم کیو ایم کیا ان کو توڑا جا سکتا ہے؟ بظاہر یہ ناممکن ہے۔ (ق) لیگ کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔ قومی اسمبلی میں چند سیٹوں کے عوض انہیں نہ صرف مرکز میں وزارتیںملی بلکہ صوبے میں بھی سپیکر شپ اور چند وزارتیں حصے میں آئی ہیں۔ انہیں اور کیا چاہئے۔ انہیں سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ شریف برادران منقار زیر ہیںجو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی وزارت علیہ کا جھانسا دیکر (ن) لیگ انہیں رام کرے گی وہ یقینا خوش فہمی کا شکار ہیں۔ چودھری برادران‘ آزمودہ را آزمودن کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری بار دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ انکے ساتھ پہلے ہاتھ ہو چکا ہے۔ میریٹ ہوٹل کے کروڑوں کے بل انہوں نے ادا کئے تھے۔ اس یقین دہانی پر کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں پنجاب کی وزارت علیا انہیں دی جائیگی۔ جب موقع آیا تو عذر لنگ پیش کیا گیا ’’ابا جی نہیں مانتے‘‘ بقول مجید نظامی صاحب انکی حالت دیدنی تھی۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق یہ پژمردہ چہرے اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ واپس چلے گئے۔ بالفرض وقتی مصلحتوں کے تحت انہیں وزیراعلیٰ بنا بھی دیا جاتا ہے تو یہ مٹی کے مادھو ہونگے۔ انکی ڈوریں کوئی اور ہلا رہا ہوگا۔ (ن) لیگ کے وزیر سگریٹ پی کر دھواں انکے چہرے پر پھینکیں گے۔ چھوٹا شہزادہ ان کی ناک میں دم کر دے گا۔ نو نقد نہ تیرہ ادھار کی اہمیت انکی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت یہ خان صاحب سے اتنے خوش نہیں ہیں۔ مونس کا وزیر نہ بننا ایک پھانس ہے جو ان کے حلق میں اٹکی ہوئی ہے۔ لیکن…! ضیاء الحق نے ایک مرتبہ میاں نوازشریف کے متعلق کہا تھا ’’اس کا کلہ مضبوط ہے۔‘‘ گو اس مرتبہ کسی نے کچھ نہیں کیا‘ لیکن خان صاحب کے کلے کی مضبوطی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمارے دوست ملک صاحب جو انگریزی بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ فرماتے ہیں۔
HIS STRENGTH LIES IN HIS WEAKNESS ہم مقتدر قوتیں یہ سوچ کر ہی ہلکان ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ چلا گیا تو کیا بنے گا؟ لہٰذا خان صاحب ’نوں ستے خیراں ہن‘‘
تو چرا باشی بفکر مبتلا 
کار ساز مابفکر کار ما
ایم کیو ایم کی روش اور سوچ کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ گنگا گئے تو گنگا رام‘ جمنا گئے تو جمنا داس! یہ اپنے سود و زیاں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ بالفرض سود معروضی حالات میں کم بھی ہو تو ’’زیاں‘‘ کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ گو پیپلزپارٹی کے دور والے گھپلے تو اب ممکن نہیں ہیں‘ لیکن حلوے مانڈے اب بھی کسی طور میسر آجاتے ہیں۔
گرم ہوائوں میں جھلسنے کی نسبت بہتر ہے کہ آدمی بادلطیف سے لطف اندوز ہوتا رہے۔ لہٰذا ان کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پیر پگاڑا کی پارٹی بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کو اپنا اصل حریف سمجھتی ہے۔ ان کا پی ٹی آئی سے الحاق منطقی ہے۔
اس ’’روح افزا‘‘ بیان کے بعد شیخ رشید صاحب نے بلاول کو بلوغت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔ کل تک انہیں ’’سیاسی بچونگڑا‘‘ کہتے تھے۔ کل تک عزیزم بھی خان کو گریبان سے پکڑ کر کرسی سے اتارنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس اچانک یو ٹرن پر سیاسی پنڈت سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ مختلف تاویلیں نکالی جا رہی ہیں۔ تجزیئے ہو رہے ہیں۔ کوئی خفیہ ڈیل؟ جان بخشی کی بشارت؟ سیاسی ناتجربہ کاری! بالغ نظر لوگ اس قسم کے دھماکہ خیز بیان ہمیشہ سیاسی نابالغوں سے دلواتے ہیں۔ بظاہر یوں گمان ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی عمارت میں صرف شگاف ہی نہیں پڑے بلکہ مسمار ہو گئی ہے۔
تھی اس تعمیر میں مضمر بھی اک صورت خرابی کی!

ای پیپر دی نیشن