ایف آئی اے کی جانب سے باقاعدہ طلبی کے بجائے اس کے اہل کاروں کے بلاوارنٹ گھر درآنے سے خوف آتا ہے۔انہیں یہ اختیار مگر صدارتی حکم کے ذریعے لاگو ہوئے قانون کے ذریعے دو دن قبل ہی فراہم کردیا گیا ہے۔میری لکھی کوئی تحریر اب انہیں ’’فیک نیوز‘‘ یا کسی معزز شہری کی توہین کرتی محسوس ہوئی تو میں اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ سے محروم ہوجائوں گا۔ ان دونوں کی پڑتال ہوئی تو غالبؔ کے مرنے کے بعد اس کے گھر سے جو ’’سامان‘‘ نکلا تھا میرے جیتے جی ہی لوگوں کے سامنے آجائے گا۔اپنی رسوائی کے بعد غالباََ جیل ہی میں پانچ برس گزارتے ہوئے موت کے انتظار کو ترجیح دوں گا۔
زندہ رہنے کے لئے مگر میرے لئے سانس لینے کے علاوہ لکھنا بھی ضروری ہے اور قارئین ملکی سیاست کی بابت رائے زنی کا تقاضہ کرتے ہیں۔یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان وسیع وعریض دنیا کا محض ایک ملک ہے۔اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی کہ دنیا ’’عالمی گائوں‘‘ میں بدل چکی ہے۔پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے اس کے اثرات سے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے۔’’حالاتِ حاضرہ‘‘ کے عنوان سے لہٰذا عالمی امور پر نگاہ رکھتے ہوئے مجھ ایسے قلم گھسیٹوں کو ’’دانشور‘‘ رہنے کا ڈھونگ رچانا ہوگا۔ ملکی سیاست کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے۔
’’فیک نیوز‘‘ پھیلانے کے الزام سے بچنے کی خاطر میں نے اب عالمی امور پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوزر کھنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔اس پر عملدرآمد کے لئے پیر کی رات کافی دیر تک جاگتا رہا۔روس کے صدر پوٹن کی طولانی تقریر بھی سن لی ہے۔وہ تقریر دیکھتے ہوئے مجھے فی الفور لاہور کے شاہی قلعہ میں واقعہ دیوانِ عام اور دیوانِ خاص یاد آنا شروع ہوگئے۔میں اکثر سوچتا تھا کہ وہاں بادشاہ اپنے مصاحبین یا فریادیوں سے کہاں اور کس انداز میں بیٹھ کر گفتگو کررہا ہوگا۔پیر کی رات پوٹن کے لگائے دربار نے مذکورہ سوال کا جواب فراہم کردیا۔ اپنے مصاحبین سے وہ کم از کم 20فٹ کے فاصلے پر بیٹھا ان سے ’’صلاح مشورہ‘‘ کرتا رہا۔بالآخر اس میز پر بیٹھے ہوئے بھرپور شاہی جلال وجمال کے ساتھ ایک طولانی خطاب بھی فرمادیا۔
مذکورہ خطاب کے ذکر سے قبل لازمی ہے کہ یاد رکھا جائے کہ رقبے کے اعتبار سے روس سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی دنیا کے تین بڑے ممالک میں شامل ہے۔وسطی ایشیاء کے ہیبت ناک پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ ملک Slav(سلاو)نسل کا مرکز ہے۔ اس کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔تیل اور گیس کے یہاں بے تحاشہ ذخائر ہیں۔ ان کی دریافت سے قبل مگر یہ ایک بہت ہی خوش حال زرعی ملک بھی رہا۔جاگیرداروں کے تقریباََ چھوٹے شہروں جتنے رقبے تھے جنہیں حقیقی معنوں میں غلام بنائے کسان سرسبزوآباد رکھتے۔جاگیر داروں کی زندگی مگر پرتعیش رہی۔ ان کے گھر مستقل روشن،گرم اور آباد رہتے۔جاگیر داروں کا حتمی سرپرست وہاں کا بادشاہ تھا جو زار کہلاتا ۔ہر ’’زار‘‘ کو شہنشاہ دِکھنے کا خبط بھی لاحق تھا۔تقریباََ ہر زار اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے جنون میں مبتلا دکھائی دیا۔اسی جنون کی بدولت سنٹرل ایشیاء میں موجود مسلمانوں کے ثمرقند بخارا جیسے عظیم مراکز بالآخر روسی سلطنت میں زبردستی شامل کردئیے گئے۔روس مگر خود کو یورپ میں پھیلا نہیں پایا۔اپنے مغرب میں واقع یوکرین تک ہی محدود رہا۔
یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد وہاں کے باسی روس کو حقارت سے ’’مشرق‘‘پکارتے تھے۔وہاں کے باسیوں کو اجڈ ا ور پسماندہ تصور کیا جاتا۔روس کی اشرافیہ ایسی شناخت سے خود کو مسلسل شرمندہ محسوس کرتی رہی۔اپنے بچوں کو ’’تہذیب‘‘ سکھانے کے لئے جرمنی اور فرانس سے اتالیق درآمد کرتی جن کے بہت چائو اور مان سے نخرے اٹھائے جاتے تھے۔’’مغرب‘‘ نے مگر روس کو ہمیشہ اپنے سے کم تر سمجھا۔ردعمل کی صورت روسی ادیبوں اور شاعروں کی بالآخر ایک کھیپ تیار ہوئی جس نے بہت لگن سے روس کی ’’وکھری‘‘ شناخت کو فخر سے اجاگر کرنا شروع کردیا۔ دنیا کا پہلا کمیونسٹ انقلاب بھی 1917میں اس ملک ہی میں رونما ہوا اور 1960کی دہائی تک پہنچتے ہوئے روس سوویت یونین کی شناخت کے ساتھ امریکہ کے مقابلے میں ’’سپرطاقت‘‘ بن گیا۔سوویت یونین اور امریکہ کے مابین اس کی بدولت دنیا کے دیگر ممالک کو اپنا زیر نگین رکھنے کی کش مکش جاری رہی۔مذکورہ کش مکش ’’سردجنگ‘‘ کہلاتی تھی۔ روس مذکورہ جنگ کے دوران بھی اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی خواہش میں مبتلا رہا۔
اس خواہش کے نشے میں بالآخر 1979کی دسمبر میں افغانستان میں بھی درآیا۔امریکہ اور اس کے اتحادی مگر اس کی وجہ سے پریشان نہیں ہوئے۔تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ افغانستان ہمیشہ اپنی سلطنتوں کو وسعت دینے والے دلاوروں کا ’’قبرستان‘‘ ثابت ہوا ہے۔اس مفروضہ کو ا چھالنے کے بعد افغانستان میں ’’جہاد‘‘ کی بدولت سوویت یونین کو گھیرنے کا فیصلہ ہوا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غازی ضیاء ا لحق شہید نے اس ضمن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھرپور معاونت کافیصلہ کیا۔بالآخر سوویت افواج کو اس ملک سے فرار ہونا پڑا اور اس کے نتیجے میں ماسکو کی سرپرستی میں بنایا کمیونسٹ ملک اور بلاک بھی حتمی شکست سے دو چار ہوگیا۔
سنٹرل ایشیاء اور مشرقی یورپ میں اپنی نوآبادیوں سے محروم ہوجانے کے بعد روس کئی برس تک داخلی انتشار اور عدم استحکام کا شکاررہا۔افراتفری کے ایام میں پوٹن کی صورت ایک ’’دیدہ ور‘‘ نمودار ہوا۔وہ جوانی میں روس کی انٹیلی جنس ایجنسی کا اہلکار رہا تھا۔ سوویت یونین کی ذلت آمیز شکست وریخت نے ہمیشہ اسے بے چین رکھا۔بہت مہارت سے بالآخر روس کا بااختیار اور طاقت ور ترین صدر بن جانے کے بعد سے وہ روس کی زارسلطنت اور سوویت نظام کے تحت نمودار ہوئی آن وشان کو ہر صورت بحال کرنے کی لگن میں جت گیا۔
تیل اور گیس کے ذخائر کا پوٹن نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ان کی فروخت سے جو اربوں ڈالر کمائے ان کا بیشتر حصہ اپنی فوج کو جدید تر بنانے میں خرچ کیا۔جدید ہتھیاروں کے حصول کے علاوہ اس نے کمپیوٹر کے نت نئے پروگرام ایجاد کرواتے ہوئے اپنے مخالف ممالک میں ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے ذریعے اضطراب وافراتفری پھیلانے کی حیران کن صلاحیت بھی حاصل کرلی ہے۔پوٹن اب خود کو ’’حقیقی روس‘‘ کا وارث تصور کرتے ہوئے ’’مغرب‘‘ کو سبق سکھانے کو تلابیٹھا ہے۔
اس کے مغرب میں پہلا ملک یوکرین آتا ہے۔تاریخی،نسلی اور تہذیبی اعتبار سے روس اور یوکرین کے مابین تفریق اجنبیوں کو فی الفور محسوس نہیں ہوتی۔ یوکرین کئی صدیوں تک زار سلطنت کا حصہ بھی رہا ہے۔وہاں کا ہر شہری اپنی مادری زبان کے علاوہ روسی زبان پر بھی کافی گرفت کا حامل ہے۔یہ دونوں ممالک مسیحی مذہب کے اس مکتب کے پیروکار بھی ہیں جسے ’’کٹریاOrthodox‘‘کہا جاتا ہے۔روس اور یوکرین کی تاریخی اور نسلی قربت کے حوالے سے یہ حقیقت بھی یاد رکھنا ہے کہ روسی ادب کے قد آور بانیوں میں گو گول بھی شامل تھا جو پیدائشی طورپر یوکرین کا باشندہ تھا۔
ماسکو میں بیٹھے کسی بھی حکمران نے خواہ وہ زار شاہی سے منسلک رہا ہو یاکمیونسٹ نظام سے یوکرین کو دل سے روس سے الگ ملک کبھی تصور ہی نہیں کیا۔ وہاں بیٹھی اشرافیہ یوکرین کو روسی سلطنت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ سمجھتی ہے۔ اسے خود سے جدا ایک ’’فطری اور خودمختار‘‘ ملک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔پوٹن درحقیقت روسیوں کی بے پناہ اکثریت کے دلوں میں نسلوں سے موجزن اس سوچ کو درست ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔
پیر کے روز اپنے طولانی خطاب میں سب سے زیادہ وقت اس نے مذکورہ سوچ اجاگرکرنے میں صرف کیا ہے۔یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا کو وہ 2014ہی میں فوجی قوت کے ذریعے روسی سلطنت میں شامل کرچکا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس ضمن میں اس کا کچھ بگاڑ نہیں پائے تھے۔’’اب کے مار‘‘ والی تڑیاں ہی لگاتے رہے۔پوٹن مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔گزرے برس کے آخری مہینوں میں اس نے یوکرین کی سرحدپر جارحانہ انداز میں اپنی افواج تعینات کرنا شروع کردیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے بعد فقط ’’شیر آیا شیر آیا‘‘ والی فضا ہی بناتے ر ہے۔اس گماں میں مبتلا رہے کہ ان کی چیخ وپکار پوٹن کو یوکرین میں مزید آگے بڑھنے نہیں دے گی۔پوٹن نے مگر ان سب کو پیر کی رات چونکا دیا ہے۔
یوکرین کے مشرق میں واقع دو علاقے جہاں روسی نسل کے لوگ کثیر تعداد میں آباد ہیں۔اس نے اب انہیں’’آزاد ریاستوں‘‘ کی صورت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔یوکرین اگر اسے ’’اپنے علاقے‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے ’’ہتھیائے‘‘ جانے کے خلاف دہائی مچاتے ہوئے کوئی فوجی پیش قدمی کرے گا تو روسی افواج ’’نوآزاد‘‘ ریاستوں کے ’’تحفظ‘‘ کے لئے وہاں درآئیں گی۔پوٹن نے کامل تیاری اور طویل سوچ بچار کے بعد ایک ماہرانہ چال چلی ہے۔اس کے نتیجے میں ویسی فضا بھی بن سکتی ہے جو ہٹلر نے پولینڈ پر قبضے کے ذریعے دوسری عالمی جنگ کی راہ ہموار کرنے کو بنائی تھی۔ پاکستان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔