حکومت کی طرف سے انتخابی ضابطۂ اخلاق میں ترمیم اور سوشل میڈیا پر جعلی اور جھوٹی خبروں کے حوالے سے پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کے نام سے قانون کا اجراء ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان میں پارلیمنٹ موجود ہے اور پوری طرح فعال بھی ہے۔ ان حالات میں آرڈی نینسوں کے اجراء پر سیاسی، عوامی اور متعلقہ حلقوں کی طرف سے شدید ردِعمل ایک فطری بات ہے۔ انتخابی ضابطۂ اخلاق میں ترمیم کر کے ارکانِ پارلیمنٹ بشمول وزیروں مشیروں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی ہے جس پر الیکشن کمشن آف پاکستان نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور اسے خلافِ قانون قرار دیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام اور جماعتِ اسلامی سمیت سیاسی جماعتوں نے ان دونوں آرڈیننسوں کو مسترد کر دیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پیکا آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے تاہم اٹارنی جنرل آف پاکستان نے حکومتی موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترامیم آئین کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔ انتخابی مہم چلانا حکومت اور اپوزیشن سمیت ہر جماعت کا حق ہے۔ یہ آرڈیننس تمام قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے منظور کردہ آرڈینینسوں پر نقد و تبصرہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت نے جلد بازی میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کئے ہیں جو خلاف قانون ہی نہیں خلاف آئین بھی ہیں۔ یہ ایوانِ نمائندگان کی بے توقیری اور بے وقعتی کے مترادف ہے جس کی کسی طور حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ضروری تھاکہ مذکورہ مسودۂ ہائے قوانین عوام کے منتخب فورم (اسمبلی) میں پیش کئے جاتے۔ ان پر تمام سیاسی جماعتوں کی رائے سامنے آتی اور پھر اس کی روشنی میں ترامیم و اضافے کے ساتھ ان کی منظوری حاصل کی جاتی، چونکہ ایسا نہیں کیا گیا اس لیے تمام اداروں، جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے ان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اب اگر انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے، جیسا کہ پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے تو اس کی مخالفت میں عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں نہ صرف حکومت کی سبکی ہو گی بلکہ یہ قوانین بھی غیرمؤثر ہو جائیں گے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنے اقتدار کے آخری سال میں ایسے اقدامات نہ کرے جن سے اسے عوامی سطح پر ناکامی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے بلکہ اس کے بجائے عوام کے بہترین مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کی جائے تاکہ کسی رکاوٹ اور بدمزگی کے بغیر وہ اپنی مدتِ اقتدار پوری کر سکے۔