مکرمی! پچھلے چند سالوں میں اگر کوئی لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے تو وہ ہے تبدیلی۔ ہم نے اسے آمروں میں سُنا۔ میڈیا پر سُنا۔ اسے ڈرائنگ روم بحث مباحثے کاموضوع بنایا۔ اس سے مختلف مفہوم اخذ کیے اور ذہن نشین کر لیا اور قطعی طورپر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی دُنیا تبدیلی کو کس طرح لیتی ہے۔ دُنیا میں تبدیلی کی جس قسم کو سراہا جاتا ہے اور ہمارا مذہب تبدیلی کی جس قسم کی سب سے زیادہ حمایت کرتا ہے وہ ہے انساں کی اندرونی تبدیلی۔ تبدیلی افراد کے بدلنے سے آتی ہے کیونکہ فرد کی ذہنی بلوغت سے رویوں میںتبدیلی آتی ہے اور مثبت رویے صحت مند معاشرے کو جنم دیتے ہیں۔ اب آتے ہیں اس سوال پر کہ یہ تبدیلی آتی کیسے ہے۔ اس کا بے حد سیدھا سا جواب ہے تعلیم و تربیت ۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو لوگوں کا شعور اُجاگر کرتی ہے۔ ہر شئے اور واقعہ جس کو آنکھ دیکھتی، پڑھتی اور جو کان سنتے ہیں ذہن اس کو صحیح غلط کی کسوٹی پر پرکھنے لگتا ہے اور یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے اس کا مزاج تنقید سے اپنی ذاتی اصلاح کی طرف مڑتا ہے۔ یہ تبدیلی کا وہ سفر ہے جو سست مگر دیرپا اور پُراثر ہے جس کے نتیجے میں انسان خود اپنا بہتر سے بہترین بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی افراد، معاشروں اور پھر قوم کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ تبدیلی کوجس طرح ہم لیتے ہیں دُنیا اس سے بالکل مختلف دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ آپ اس کا حقیقی مطلب سمجھنے کے لیے مختلف ملکوں کی کیس سٹڈی کر سکتے ہیں اور اس دیرپا تبدیلی کو لانے کا ایک ہی آلہ ہے اور وہ ہے تعلیم۔ جب تک تعلیم ہماری ترجیح نہیں بنے گی ہم دُنیا کی ترجیح نہیں بنیں گے اور نہ ہی کوئی تبدیلی آئے گی۔ (مریم مصدق لاہور)