اخلاقی وجود کا کھو جانا

مہذب معاشرے میں اخلاقیات قوموں کا اثاثہ شمار ہوتا ہے، اخلاق کی فضیلت اچھے اخلاق کی پہچان بنتی ہے جبکہ برا اخلاق رذیلت کے زمرے میں آتا ہے ، انسان کا اخلاق اسکی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے جب بندے پر سفلی جذبے غالب ہو جائیں تو اخلاقی وجود روحانی توانائی سے محروم ہونے کیساتھ عقلی استعداد سے بھی فارغ ہو جاتا ہے، یہی انسان کی پستی کا سبب بنتا ہے اور یہ اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے ، انسان کی اخلاقی حس پر جب ذاتی مفاد ، مال و زر کا پردہ پڑھ جائے تو معاشرے میں ظلم و فساد عام ہو جاتا ہے لوگوں کے حقوق غصب کرنے کے طور طریقے اپنے مجاز کے مطابق ڈھال لئے جاتے ہیں، عصرِ حاضر میں اخلاقی قدروں کی پامالی غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ عناصر کی مر ہون ِ منت ہے، معاشرے میں دو دہائیوں پر مشتمل سیاسی چپقلش اور الزام تراشی سے اخلاقی زوال رونما ہوا ۔ سیاسی اکابرین کے مطابق عمران خان سرکار کے چار سال عوام کیلئے معاشی بد حالی، تباہی، مہنگائی کے سونامی ، ملکی قرضوں کے بوجھ ، معیارِ زندگی کی گراوٹ، اشیاء خورد و نوش اور اشیاء ضروریہ کی مسلسل گرانی کا ایک بھیانک باب ہے ، ایک طرف حکومت وسائل کا رونا روتی ہے ، تو دوسری طرف اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر رضا باقر کو 25 لاکھ ماہانہ تنخواہ اور کم و بیش اتنی ہی ماہانہ دیگر مراعات دی گئیں ہیں ، یہ دوغلی پالیسی عوام کے ساتھ کھلا دھوکا اور فریب ہے، خطے کے دوسرے ممالک کی کرنسی کا موازنہ امریکی ڈالر سے کیا جائے تو اس وقت پاکستانی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، انڈیا، جاپان، ملائیشیا،مالدیپ، نیپال، فلپائن،تائیوان، تاجکستان، ترکمانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے حتیٰ کہ تین دہائیوں تک بیرونی جارحیت اور جنگی تباہ کاریوں کا سامنا کرنیوالے افغانستان کے مقابلے میں بھی پاکستانی روپیہ کمزور ہے ۔  موجودہ حکومت اخلاقی طور پر اپنا وجود کھو چکی ہے ، حکومتی اتحادی بھی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث تذبذب کا شکار ہیں ، مرکزی جمیعت اہلِ حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے یہ بات جس تناظر میں کہی وہ حقیقت کی تصویر کشی ہے ، اخلاقی وجود کا کھو جانا ہی دراصل معاشرے کازوال ہے ، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ حکمراں اپنے منصب اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے سے گریز کریں ، الیکشن کے دوران کسی حلقہ میں اپنا اثر و رسوخ ظاہر کر کے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہ ہوں ، الیکشن کے اس ضابطہ اخلاق کا حکومتِ وقت اپنے مفاد کی خاطرتبدیل کرنے کافیصلہ کر چکی ہے جس کی تبدیلی کے بعد وزراء اور پارلیمنٹیرینز انتخابی مہم چلا سکیں گے ، ضابطہ اخلاق کے قانون میں تبدیلی کے ایسے فیصلے اخلاقی وجود کو کھو دینے کے زمرے میں آتے ہیں ،گلگت بلتستان کے الیکشن میں حکومتی وزراء کے سیاسی خواتین کے بارے میں لب ولہجے نے غیر اخلاقی صورتحال پیدا کی جس پر ملک کی سیاسی جماعتوں نے ردِ عمل دیا اور الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیر موصوف کو نوٹس جاری کیا ، جو کہ اخلاقی نا قدری کی نظر ہو رہا ہے۔
 ملک میں مہنگائی اور اخلاقی پستی کی وجہ سے عام شہری ذہنی کرب میں مبتلا ہے ، حکومتی جماعت پی ٹی آئی میں اختلافات اور شگاف واضح ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ سندھ میں تحریکِ انصاف کے سینئر نائب صدر حلیم عادل شیخ اور نائب صدر علی جونیجو سمیت پی ٹی آئی کے پانچ عہدیداروں کا پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث عہدوں سے مستعفی ہو نا حکومت کے لئے لمحہء فکریہ ہے ، جبکہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے خفیہ ملاقات کی ہے ، جس میں دونوں رہنمائوں نے عمران خان کی حکومت اور اسکے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی ہے ، وزیراعظم خود اتحادیوں سے پریشان نظر آتے ہیں جبکہ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو ہر حال میں راضی کرنے کا ٹاسک دیا ہے ، یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ گزشتہ چند روز سے سپیکر پنجاب اسمبلی حکومت پنجاب سے خفا ہیں انکی طرف سے بھیجے گئے امور کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ، پنجاب کابینہ کے ایک اہم رکن نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ حکومت پنجاب اور پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کے درمیان دوریا ںبڑھ چکی ہیں ۔ملکی حالات اخلاقی پستی یا نااہلی کے سبب جس طرح زوال پذیر ہیں عقل کا تقاضا ہے کہ اپنی ناکامی کی بھینٹ نا چڑھایا جائے جسقدر ممکن ہو افہام وتفہیم اور گفت و شنید سے اہل افراد کے سپرد کر کے ملک کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی تدبیر کی جائے، یہ ہم سب کا ملک ہے ، فردِ واحد عقلِع کل نہیں ہو سکتا ، معاشرے کے پیچ وخم مشترکہ کوششوں اور مل بیٹھ کر طے کرنے میں ہی ملک کی سلامتی مضمر ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...