علامہ محمد امین خیال کا شمار گوجرانوالہ کے استاد شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ 1932ء کو گرجاکھ (گوجرانوالہ) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد امین ہے۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایم اے ہائی سکول گوجرانوالہ سے پاس کیا۔ علوم شرقیہ (فاضل اردو ۔ پنجابی) کے امتحانات پاس کیے۔ بی اے پرائیویٹ کیا۔ انھوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1989ء میں بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں پنجابی پڑھاتے رہے۔ انھوں نے ہزاروں طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ استاد کا پیشہ انھوں نے مشن سمجھ کے اختیار کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بچے ان سے گھر پڑھنے آتے۔ اس سلسلے میں وہ معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ اردو اور پنجابی شاعری میں یکساں مہارت تھی۔ علم عروض پر انھیں عبور حاصل تھا۔ انکی شناخت پنجابی شاعری کے حوالے سے ہوئی۔ انکی کتابوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے۔ امین خیال سے میرا نیاز مندی کا تعلق 1970ء سے شروع ہوا جو انکی وفات تک جاری رہا۔ خیال صاحب کو اپنے چھوٹے صاحبزادے بیرسٹر محمد عون شاہد سے بہت پیار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2004ء میںگوجرانوالہ سے لاہور محمد عون شاہد کے پاس آ گئے اور وفات (جولائی2014ئ) تک وہ لاہور ہی میں رہے۔ اور یہیں وفات پائی۔ تدفین گرجاکھ (گوجرانوالہ) میں ہوئی۔ جہاں ان کا مزار ہے۔ امین خیال جب لاہور آتے تو مجھ سے ملاقات ضرور کرتے۔ دو تین مرتبہ گرجاکھ ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ لاہور قیام کے دوران ان سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔ بیرسٹر محمد عون شاہد انکے ادبی وارث بھی ہیں۔ انھوں نے خیال صاحب کے چار مجموعے کلیات کی شکل میں چھپوائے اور اس کی تعارفی تقریب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں کروائی۔ شاعری کے علاوہ تنقید اور تحقیق پر ان کا کام ہے۔ پنجابی میں احادیث کا ترجمہ کرنے کے علاوہ فقہ کے حوالے سے ایک کتاب لکھی۔ تحقیقی کتاب ’’ناراں طلے دیاں تاراں‘‘ ہے، جو شاعرات پر ہے۔ پنجابی میں بھی انکے شاگردوں کی تعداد درجنوں ہے مگر ہونہار شاگردوں میں غلام مصطفی بسمل، سلیم احمد، رشید انجم، پروفیسر محمد اکرم سعید، پروفیسر ڈاکٹر رزاق شاہد، ارشد بزمی اور ڈاکٹر اسحاق جاوید کا شمار ہوتا ہے۔ ان شاگردوں نے شاعری میں اپنا مقام بنایا اور شعری مجموعے شائع ہوئے۔ شاعرات میں خاور راجا، ریحانہ سرور، یاسمین مبارک، زیب النساء زیب، یاسمین سحر اور دیگر ان کی شاگرد تھیں۔ امین خیال گروہ بندی کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گوجرانوالہ کے کسی ادبی گروپ میں شامل نہیں ہوئے۔ ادبی تنظیموں بزم اقبال اور بزم وفا سے وہ وابستہ رہے۔ انھیں ہر اس شاعر کا کلام پسند تھا جس میں رب، رسولؐ سے محبت ظاہر ہو اوروطن سے مخلص ہو۔ ایسا کلام جس میں امن، پیار محبت کا پرچار ہو۔ امین خیال کی وفات کے بعد ان کی شخصیت، شاعری اور ادبی خدمات کے حوالے سے اب تک پی ایچ ڈی کے تین مقالے لکھے جا چکے ھیں۔
انھوں نے ’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ لکھی جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی۔ حال ہی میں اس کتاب کو ان کے صاحبزادے بیرسٹر محمد عون شاہد نے شائع کیا ہے۔ یہ حصہ اول ہے۔ باقی والیم بھی وہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں۔ ’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ ان کا تاریخی کام ہے۔ پہلے حصے میں انھوں نے گوجرانوالہ کی سیاسی تحریک اور یہاں کی چند اہم شخصیات کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ ان میں آزادی کی تحریک اور گوجرانوالہ، آزادی کے مجاہدین کے بارے میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ کا آغاز زمانہ ما قبل اور سکندر کے حملے سے کیا گیا ہے۔ دیگر ابواب میں منگولوں کے حملے، مغلوں کا زمانہ، اورنگ زیب عالمگیر اور مغل دور، سکھ دور، بھگتی تحریک، گورونانک، مشہور مثلاں، سکھوں اور چٹھوں کی جنگیں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کا فوجی نظام، سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ وغیرہ شامل ہیں۔ آزادی کی تحریک اور آزادی کے مجاہدین میں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں چند نام یہ ہیں۔ مولانا عبدالرحمن جامی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ظفر علی خاں، شیخ دین محمد، بابو عطا محمد، جسٹس عطاء اللہ سجاد، ارشد میر ایڈووکیٹ، صوفی محبوب الہی، حوہدری ظفر اللہ خاں، چودھری سرور خاں، حکیم نیاز علی، صوفی نذر محمد سیال۔یہ کتاب پنجابی زبان میں ہے۔ کتاب کا فلیپ ڈاکٹر رزاق شاہد کا تحریر کردہ ہے۔ کتاب کی پروف خوانی بھی انھوں نے کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’علامہ محمد امین خیال جگت جانو شاعر تے لکھاری سن۔ گوجرانوالہ تے امین خیال اک دوجے دی پہچان سن۔ امین خیال دا ذکر جتھے وی جس حوالے نال وی ہووے، گوجرانوالہ دے ذکر دے بغیر نا مکمل رہندا اے۔ پیشے ولوں استاد ہون دے ناتے ادھا گوجرانوالہ اوہناں دی شاگردی دا دم بھردا اے۔ انج ای اوہناں کولوں شعری تے ادبی فیض حاصل کرن والے وی بہت وڈی تعداد وچ نیں۔ اوہناں دی شخصیت وچ پیار محبت تے شفقت کُٹ کُٹ کے بھری ہوئی سی۔ اوہ اردو، پنجابی ادب دیاں نامور ہستیاں وچوں اک سن‘‘
’’سانجھاں‘‘ میں ان کا پنجابی کلام شائع ہوتا رہا۔ امین خیال کی غزل کا ایک شعر ہے:۔؎
شالا سُوہا سالو کوئی پونجھے میرے اتھرو
سوچ خیال دا پھر کوئی دیوا اوہ چن آن جلاوے