اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نیب ترامیم کیس میں جسٹس منصور نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کتنی ہی بری کیوں نہ لگیں صرف یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہیں چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے متعلق بھارتی قانون کا حوالہ دیں گے؟ بھارتی قانون میں احتساب کے عمل کو بنیادی انسانی حقوق سے جوڑا گیا ہے۔ بھارت کے مطابق قانون کی بالادستی بھی بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا بھارت کا نیب جیسا قانون ہے؟ کیا نیب جیسے قوانین جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں ہیں؟ اگر نیب قانون اچھا ہے تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہوا؟ کیا نیب قانون سے حاصل ہونے والے فائدے پر کسی آزاد ادارے نے کوئی رپورٹ بنائی ہے؟ کیا نیب کی کارکردگی سے حاصل ہونے والے فائدے پر کوئی رپورٹ ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا عدالت کے تمام سوالات کا جواب تحقیق کر کے دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا اگر سزا پر چھوٹ مل سکتی ہے تو کیا جرم کہ شدت بھی کم کی جا سکتی ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا عمران خان نے نیب قانون میں خود بھی ترامیم کیں، عمران خان خود ان نیب ترامیم کے ایک حصے کے مصنف ہیں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ ترامیم کرنے والا شخص خود بعد میں انہیں چیلنج کرے۔ عمران خان نے نیب ترامیم سے متعلق پارلیمنٹ میں بحث اور ووٹ میں حصہ نہیں لیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدالت صرف یہ دیکھے گی کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کہاں متاثر ہوئے؟ مخدوم علی خان نے کہا نیب قانون میں دو بار ترامیم 2019، تین بار 2021 اور ایک بار 2022 میں ہوئیں، جس کے بعد کیس کی مزید سماعت 23 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔