تنخواہ، مراعات نہین لے گے ، بل خود ادا کرینگے : وفاقی کا بینہ 


اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ)   وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری سے متعلق اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے اور گیس، بجلی سمیت دیگر بلز اپنے جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی،  کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ میں صدر پاکستان کو غیرآئینی حرکت کرنے پر خط لکھوں گا ، اور مزمت کی جائے گی، کیونکہ صوبوں میں انتخابات کرانے کی تاریخ دینے کا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر کہیں صریحا جانبداری ہورہی ہے توکب تک آنکھیں  بند کرینگے، ہم مطالبہ کرتے ہیں ایسے ججز جن کا رویہ ن لیگ کے ساتھ معاندانہ، جانبدارانہ اور متعصبانہ ہے ان کے سامنے ہمارے کیس نہ رکھے جائیں،سپریم کورٹ کے جن جج صاحبان نے مسلم لیگ ن کے خلاف ماضی میں فیصلے دیئے ہیں وہ ہمارے خلاف فیصلوں سے رضاکارانہ طور پر الگ ہو جائیں ۔  کابینہ کا سائز مختصر کرنے کی خوشخبری جلد سنیں گے۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ میں کفایت شعاری سے متعلق بتایا کہ حکومت کے تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تمام وزرا گیس، بجلی وغیرہ کے بل اپنی جیب سے ادا کریں گے، کابینہ اراکین کے زیر استعمال تمام لگڑری گاڑیاں واپس لی جارہی ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا، جہاں ضرورت ہوگی، وہاں وزرا کو سیکیورٹی کے لیے صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔ وفاقی وزرا اندرون و بیرونی ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ معاون عملے کو بیرون دوروں پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی،دوروں کے دوران کابینہ ارکان 5 اسٹار ہوٹل میں قیام نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام وزارتوں، زیلی ماتحت دفاتر، ڈویڑن، متعلقہ محکموں کے جاری اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی، پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران اس فیصلے کے نتیجے میں اپنے بجٹ میں ضروری ردوبدل کریں گے۔ جون 2024 تک تمام لگژری اشیا کی خریداری اور ہر طرح کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔  سرکاری افسر ضرورت پر بیرونی ممالک دورے کرینگے،  صرف اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، معاون عملہ ساتھ جائے گا نہ 5 سٹار ہوٹل میں قیام کریں گے۔ وزارتوں اور ڈویژنز میں سینیئر افسروں سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی جو پہلے ہی کار مونٹائزیشن حاصل کر رہے ہیں، جو لوگ غلط استعمال کریں گے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران کے پاس موجود سیکیورٹی گاڑیاں واپس لی جائیں گی، انہوں نے کہا کہ کابینہ کا کوئی رکن، عوامی نمائندہ یا سرکاری افسر لگڑری گاڑی استعمال نہیں کرے گا، سفر، قیام و طعام کے اخراجات میں کمی کے لیے ٹیلی کمیونی کشین کو ترجیح دی جائے گی، مثلاً ملکی سطح پر میٹنگ یا کانفرنس کے لیے زوم میٹنگ کانفرنس کو ترجیح دیں گے تاکہ سفری اخراجات بچائے جائیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں کوئی بھی نیا شعبہ تشکیل نہیں دیا جائے گا، آئندہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع، سب ڈویژن یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کی بچت کے لیے گرمیوں میں دفاتر کھولنے کا وقت صبح 7 بجے رکھنے کی تجویز کو منظور کیا گیا ہے اور کم توانائی سے چلنے والے برکی آلات کا استعمال کیا جائے گا۔  سرکاری افسر یا حکومتی عہدیدار کو ایک سے زائد سرکاری پلاٹ نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر سرکاری افسران سے وہ سرکاری گھر خالی کرائے جائیں گے جو انگریز کے زمانے کے بنے بڑے اور شاہانہ گھروں میں مقیم ہیں اور اس سلسلے میں وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جوکابینہ کو مکمل پلان دے گی، جس میں ان افسران کے لیے ٹاؤن ہاؤسز تعمیر کیے جائیں گے اور تمام سہولیات کے ساتھ اچھے گھر دیئے جائیں گے جبکہ موجودہ گھروں کی زمینوں کو بیچ کر اربوں روپے کے وسائل جمع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری تقاریب میں کھانے کے لیے سنگل ڈش اپنائی جارہی ہے اور چائے کا موقع ہوگا تو صرف چائے اور بسکٹ دیے جائیں گے، تاہم غیر ملکی مہمانوں کے لیے یہ پابندی لاگو نہیں ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات آخری مراحل میں ہے۔انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تقریباً تمام شرائط پوری کرلی ہیں کہا گیا ہے کہ غریب کو سبسڈی دیں۔ 1965 کی جنگ میں مالی معاملات میں مشکل آئی تو غریب آدمی نے قربانی دی اور اگر زلزلے، سیلاب آئے تو غریب آدمی اور یتیم لوگوں کی زندگی تنگ ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ اشرافیہ اور حکومتوں نے وہ حصہ نہیں ڈالا جو ان کو دینا چاہیے تھا جس کی وجہ سے آج تک صرف غریب لوگ ہی پستے آرہے ہیں۔  وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے بھی 40 ارب روپے منظور ہوئے ہیں جو ان پر خرچ ہوں گے جبکہ  انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن