شیخ جی اس بار کس کے گلے لگ کر روئیں گے 

Feb 23, 2023

عبداللہ طارق سہیل

بالآخر چودھری پرویزالٰہی خان صاحب میں ضم ہو گئے۔ مطلب ان کی جماعت پی ٹی آئی میں ضم ہو گئی۔ قطرہ گلاس میں جا ملا۔ جب گلاس نہیں ہوتے تھے، تب ’’کولے‘‘ ہوتے تھے، پیالہ نما برتن۔ شاعر نے کا خوب کہا ہے کہ ؎
عشرت قطرہ ہے ’’کولہ‘‘ میں فنا ہو جانا 
چودھری صاحب کولے میں گم ہو گئے۔ اگرچہ علامتی طور انہیں پارٹی کا ’’صدر‘‘ بھی بنایا جائے گا۔ اب چیئرمین صاحب کی چھترچھاپا میں عشرت میں نہایا کریں گے۔ بہت زیادہ پرانی بات نہیں جب خاں صاحب چودھری صاحب کو پنجاب کے سب سے زیادہ ایماندار آدمی کا خطاب دیا تھا اور عمران خان کلچر  تو پورے پاکستان کے ایماندار ترین آدمی تو یوں کہئے کہ پنجاب کا سب سے ایماندار آدمی مالک کے سب سے ایماندار آدمی کا ہم وجود ہو گیا۔
چودھری صاحب نے کچھ عرصہ پہلے خان صاحب کو انتخابی اتحاد بنانے کے عوض قومی اسمبلی کی 15 اور  صوبائی کی کی 25 سیٹیں مانگی تھیں‘ اب یہ جھگڑا بھی ختم ہوا۔ ساری سیٹیں ہی رہی ہیں۔ ایک تو چودھری صاحب نے یہ پایا دوسرے پارلیمانی صدارت کمائی‘ لیکن کچھ کھویا بھی۔ ایک تو اپنے دست چپ دراست محمد خان بھٹی کی رفاقت کھوئی جو سنگین معاملات میں پھنس گئے ہیں اور مستقبل قریب اور اس کے بعد والے مستقبل قریب میں بھی پھنسے رہیں گے۔ دوسرے اپنے ولی عہد کی موجودگی کوئی جو پردیس جاکر پردیس کے ہی ہو گئے۔ آسمان نے کروٹ لی تو وطن واپس آ جائیں گے۔ آسمان کب کروٹ لے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ فی الحال تو ایک ہی کروٹ پر ڈٹ کر لیٹا ہوا ہے۔ تیسرے نمبر پر شجاعت حسین سے بھائی چارہ بھی کھویا۔پرویزالٰہی ایک زمانے میں نعرے لگایا کرتے تھے کہ شجاعت کے نعرے وجن گے‘ لیکن وہ بات قصہ پارینہ ہو گئی۔ اب تو چودھری صاحب سراپا ’’فواد چودھری‘‘ کا نعرہ بنے ہوئے ہیں جو بج رہا ہے اور بآواز ہے۔ دعا ہے کہ خدا پرویزالٰہی اور فواد چودھری کی جوڑی سلامت رکھے۔ کچھ ہفتے قبل چودھری صاحب نے کسی کو فون کرتے ہوئے فواد چودھری کی شان میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا تھا جسے فواد چودھری نے زرگل سمجھ کر سینے سے لگا رکھا ہوگا۔ مستقبل بہرحال ان کا روشن ہے۔ کہیں خان صاحب کو جیل ہو گئی تو قائم مقام ’’تحریک حقیقی آزادی‘‘ کی کمان انہی کے ’’نوعمر‘‘ کندھوں پر آئے گی۔ شاہ محمود اور پرویز خٹک منہ دیکھنے میں مصروف ہو جائیں گے۔
…………
حقیقی آزادی کی جنگ اب جیل بھرو تحریک میں بدل چکی ہے اور خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ اس تحریک کی کامیابی کیلئے میرا اور میرے سینئر ساتھیوں کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ یہ نکتہ نیب‘ الیکشن کمشن اور بنکنگ کورٹ کو بھی بتا دیا جائے کیونکہ ارادے ان کے اچھے نہیں لگتے۔ انہیں بتا دیا جائے کہ نادانوں مجھے پکڑ لیا تو حقیقی آزادی کی تحریک پھر کیسے کامیاب ہوگی۔
ایک ’’مجاہد حقیقی آزادی‘‘ کی یاد آگئی جس کی ویڈیو بے حد کی حد سے بھی زیادہ مقبول ہوئی تھی۔ پولیس نے کہیں دو ڈنڈے اس کے بھی رسید کر دیئے۔ بے چارہ روتے ہوئے گلبرگ اور ڈیفنس کے ’’لوچ دار‘‘ لہجے میں فریاد کر رہا تھا کہ پولیس ہمیں مارے گی تو پھر انقلاب کیسے لائیں گے۔
…………
شیخ رشید نے سسرال سے واپسی کے کچھ دن بعد گرمیٔ گفتار کی رفتار پھر سے پکڑ لی ہے۔ فرمایا کہ جیل جانے سے نہیں ڈرتا‘ لاہور یا پنڈی سے‘ کہیں سے بھی گرفتاری دینے کو تیار ہوں۔ دو عدد ضمانت نامے ان کے پاس ہوں۔ چنانچہ ’’تیار ہوں‘‘ کا اعلان قبل از وقت لگتا ہے۔ بہرحال امید ہے کہ اس بار گرفتاری کا مرحلہ آیا تو شیخ صاحب کسی کانسٹیبل کے گلے لگ کر رونے سے کریں گے اور گلے لگالنے کیلئے کسی ’’غیر سرکاری‘‘ فرد کا انتخاب کریں گے۔ ایک بات میڈیا والوں نے نوٹ کی۔ ’’سسرال‘‘ سے واپسی پر شیخ صاحب کی صحت پہلے سے اچھی ہو گئی ہے۔شاید انہیں سسرال میں چپڑی اوردو دو ملتی رہی ہیں۔ اللہ انہیں آئندہ بھی دو دو کیا‘ چار چار چپڑی نصیب کرے۔ اور ہاں شیخ نے پھر خانہ جنگی کی نوید سنائی ہے۔ صدمے کی بات ہے کہ خانہ جنگی کا مسالہ ابھی تک اکٹھا نہیں ہو پا رہا۔ بہرحال کئے جائو کوششیں میرے دوستو۔
…………
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ صدرمملکت کے پاس ایگزیکٹو اختیارات نہیں ہیں۔ انہوں  نے خلاف آئین الیکشن کی تاریخ دیکر بحران پیدا کر دیا ہے۔
بنا اختیارات کے انہوں نے ایک بحران پیدا کر دیا۔ سوچو اختیارات ہوتے تو کتنے بحران پیدا کر دیتے۔ صدر صاحب کو ہلکا نہ لیا جائے۔ جب وہ صدر نہیں تھے تو ایک بار انہوں نے ٹی وی فتح کر لیا تھا۔ یوںوہ جنرل رپویز مشرف کے ہم پلہ ہو گئے تھے ا ور ’’فاتحین‘‘ کی فہرست میں بھی آگئے تھے۔ بہرحال تب ستارںکی چال اور تھی۔ اب ماہ منیر اور نجم الحر کی پوزیشن کچھ اور ہے۔ ہوائے فلک بھی کچھ ایسی ہے کہ مخالفانہ نہ سہی‘ موافقانہ بھی نہیں۔
…………
بارکھان کا المیہ بالآخر میڈیا کی توجہ پا گیا۔ جب مقتولہ گراناز مری نے بلوچستان کے ایک وزیر کی نجی جیل سے صجس میں سینکڑوں قیدی اور بھی بتائے گئے ہیں) ایک ویڈیو کسی طرح ریکارڈ کرا کر باہر بھجوائی تو کسی چینل کے ایئر ٹائم میں اسے جگہ نہیں ملی۔ چینل دوسری ضروری خبروں میں مصروف تھے۔ بہتر وقت سیاسی بحران کیلئے ہے۔ جو بچ جاتا ہے اس میں ناظرین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اداکارہ ماہ وش کے جوتے کی قیمت کتنی ہے اور اداکارہ شاہ رخ نے سیٹی کس دھن میں بجائی۔ یا یہ کہ فلاں ماڈل اپنی چوتھی شادی کس سے کر رہی ہے۔ اس کے بعد وقت تو بچتا ہی نہیں۔
خیر اب اس کی خبر دی ہے اور وہ ویڈیو بھی جس میں مقتولہ قرآن پاک اٹھا کر بتاتی ہے کہ اس کی بیٹی ہر روز درندگی کا شکار ہوتی ہے اور  اس کی اور اس کے ساتھ دیگر اس کے بیٹوں کی زندگی خطرے میں ہے۔
صوبائی وزیر کو بلوچستان کا ’’رائو انوار‘‘ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ وہی رائو انوار جس کی آمد پر ’’مائی لارڈ‘‘ بھی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور نذر کے طورپر ’’دائمی ضمانت نامہ‘‘ پیش کیا کرتے تھے۔
ہاں ہاں یاد آیا؟ میڈیا کو تو خبر ہو گئی۔ وزیراعظم کو بھی کسی نے خبر دی کہ نہیں؟

مزیدخبریں