طاہر حنفی کا شعری سفر 

Feb 23, 2023

اسد اللہ غالب....انداز جہاں


طاہر حنفی کے نام اور کام سے میرے پڑھنے والے احباب کی اکثریت شناسا ہے یہ صاحب گزشتہ نصف صدی سے شعر کہہ رہے ہیں اور ستر کی دہائی میں دس برس تک صحافت سے وابستگی کے دوران ان کی شعری صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آئیں اور ان کی کئی معرکہ آرا نظمیں ''خواب آنکھوں سے چھن گئے تو '' اور ''۔۔ دھوپ چھا¶ں میں ڈھل چکی ہے'' ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بن گئیں پھر موصوف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو پیارے ہو گئے ۔اس دوران میں افسر بقا کی جنگ لڑتا رہا اور شاعر دنیا کے پانچوں براعظموں کی خاک چھا نتے چھانتے جو کچھ دیکھتا رہا وہ شعروں کی صورت جمع کرتا رہا۔ ملازمت کے دوران ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وقت کی فراوانی ملی تو پہلا مجموعہ کلام ”شہر نارسا “مرتب کر ڈالا لیکن اسی دوران دست اجل نے 2013 ءمیں ان کی اہلیہ محترمہ ریحانہ طاہر کو چھین لیا انتقال سے قبل وہ کومے میں چلی گیئں اور طاہر کو اعتراف کرنا پڑا
لب ہلے نہیں لیکن آنکھ سے کہا اس نے
میرے بعد رکھو گے کس طرح خیال اپنا
2014 ءمیں شائع ہونے والے پہلے مجموعے شہر نارسا کو ملک اور بیرون ملک ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور امریکہ اور برطانیہ کے 22 شہروں میں اسکی تقاریب رونمائی منعقد ہوئیں
کچھ عرصہ بعد افسر تو ریٹائر ہو گیا مگر ایک فل ٹائم شاعر سینہ ٹھوک کر ادبی میدان میں ایک بار پھر لوٹ آیا 2019 ءمیں دوسرے شعری مجموعے گونگی ہجرت کی اشاعت سے اب 2023 ءمیں چھٹے شعری مجموعے” آواز گم شدہ “ تک ہر سال ایک شعری مجموعہ منظر عام پر لاتے رہے ہیں 2022 ءکایخ بستہ دسمبر کیا آیا طاہرحنفی کا بک ایڈونچر شروع ہو گیا اور چھٹا شعری مجموعہ ” آواز گم شدہ“ لےکر امریکہ بک ٹور پر جا پہنچے۔امریکی دارالحکومت میں واشنگٹن پریس کلب نے کتاب کی تقریب کا اہتمام کیا کلب کے صدر کوثر جاوید نے طاہر حنفی کی شاعری کے مداحین اور انکے پرانے صحافتی کولیگز کا میدان سجا رکھا تھا تقریب کے صدر معروف دانشور سید مواحد حسین شاہ نے طاہر کی شاعری کو عصر حاضر کے چیلنجوں کی عکاس قرار دیا اور کہا یہ ہمیں امید کا پیغام دیتی ہے طاہر کے پرانے صحافتی کولیگ واشنگٹن میں ڈان کے نمائندے انور اقبال نے طاہر کی شاعری کو میچور شاعری قرار دیا اور کہا کہ ہمارے عہد کی بے ثباتی کو انتہائی خوبصورتی سے مصور کیا گیا ہے” آواز گم شدہ“ کیلئے ممتاز شاعر افتخار عارف کے کلیدی مضمون ''طاہر حنفی کی تخلیقی ثروت مندی'' کا تذکرہ کم و بیش ہر مقرر نے کیا۔طاہر حنفی ہمارے عہد کی ایک بہت منفرد اور نمایاں آواز ہیں ''آواز گم شدہ'' ان کا چھٹا شعری مجموعہ کلام ہے اس سے پیشتر انکے پانچ مجموعے شہر نارسا (2014ء) گونگی ہجرت (2019ء)خانہ بدوش آنکھیں (2020 ء) یرغمال خاک (2021 ئ) اور رشک افلاک (2022 ئ) میں منظر عام پر آ چکے ہیں اور ارباب علم و ادب کی نظر میں لائق تحسین و داد ٹھہرے ہیں ۔
طاہر حنفی کا تخلیقی سفر70ءکی دہائی میں شروع ہوا یہ دہائی ہماری ادبی تاریخ کا بہت شاندار زمانہ ہے۔عبید اللہ علیم،عدیم ہاشمی،امجد اسلام امجد،نسرین انجم بھٹی، پروین شاکر،ثروت حسین ،خالد احمد،احسان اکبر،جلیل عالی،حلیم قریشی،حسن ناصر،محمد اظہار الحق،صابر ظفر،سلیم کوثر،جمال احسانی،غلام محمد قاصر کیسے کیسے خوش آواز و خوش فکر شعراءجن کا ذکر بھی وجود کو سرشار و شکر گزار بنا دیتا ہے۔اتنی مختلف آوازیں اور اتنی منفرد کہ سب الگ الگ سنائی دیتی ہیں یہ وہ آوازیں ہیں جن کے سبب پاکستان کی اردو ادب کی تاریخ بجا طور پر ناز کر سکتی ہے طاہر حنفی اسی گروہ کے ایک لائق توجہ شاعر ہیں۔
طاہر حنفی کے کلام پر نظر ڈالیں تو ان کی تخلیقی ثروت مندی کا احساس ہوتا ہے اپنے مضامین اپنا اسلوب ابلاغ اپنی لغت یہ قسمت والوں کا اعزاز ہوتا ہے اللہ کریم جس کو توفیق ارزانی فرمائے۔بیرونی ادب بالخصوص ہسپانوی زبان و ادب کے مطالعے نے انکے طرز فکر پر مثبت اثرات مر تب کئے بیرون ملک زندگی کو دیکھنے،برتنے پرکھنے کے مختلف اور طرح کے میزان و معیار سے استفادے کی جھلکیاں انکی شاعری میں ملتی ہیں طاہر حنفی نے ایک عرصہ وطن سے باہر گزارا ہے مگر ان کا اپنی دھرتی سے رشتہ اٹوٹ رہا ہے یہ نہیں کہ ان کی زندگی اور فن بیرونی اثرات سے متاثر نہیں ہوئے ہیں مگر ان کی ہر تخلیق اپنی مٹی سے جڑت اور اپنے عوام سے گہرے تعلق کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے وہ اپنے سماج کی ناہمواریوں پر دلبرداشتہ تو ہوتے ہیں مگر حوصلہ نہیں ہارتے بہتر مستقبل کیلئے امید اور جدوجہد کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے 
کسی بھی فن پارے کی تحسین وتعین حد کےلئے بے شمار تصورات و نظریات موجود ہیں ان دنوں ایک نظریہ،جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت عوامی ہے،یہ بھی ہے کہ ادب پارے اپنے زمانے کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کے ترجمان اور آئینہ دار ہوتے ہیں۔مورخوں اور صحافیوں کی رقم کی ہوئی تاریخ سے اہل قلم کی ترجمانی زیادہ درست زیادہ موثر اور زیادہ غیر جانبدار ہوتی ہے طاہر حنفی کی شاعری میں سے ایسی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں جو انکے اطراف میں بکھری ہوئی زندگی کی کشاکش آمیزش اور شکست و ریخت کا بیانیہ پیش کرتی ہے طاہر حنفی نے طرز عام سے ہٹ کر لکھنے کاڈھب نکالا ہے اور اس ذیل میں سب سے پہلے ان کا فن نئی زمینوں کا وضع کرنا ہے چونکا دینے والی مست زمینوں میں اپنے ڈھب سے شعر نکالتے ہیں اور اچھے شعر نکالتے ہیں۔لغت مروجہ جدید غزل سے ہٹی ہوتی ہے مگر اجنبی نہیں لگتی
بلبلہ پانی کا جیسے چند لمحوں کا سماں
جاں ہے کتنی آدمی کی؟ سر کشیدہ سانسوں میں 
 طاہر حنفی کا زمانہ بہت منفرد اور جان دار لکھنے والوں کا زمانہ ہے مختلف اسالیب متنوع نظریہ شعرا اپنی اپنی انفرادیت کے ہزار رنگ لئے ایسے میں طاہر نے اپنی آواز کی پہچان بنائی ہے اور یہ شناخت انکے کمال فن کی گواہی پر قائم ہوئی ہے پانچ عشروں کی محیط ریاضت فن نے ان کے کلام میں جو پختگی اور طرفگی پیدا کی ہے اس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے
 ٭....٭....٭

مزیدخبریں