آج کے اس جدید دور میں انتخابات صرف ایک دکھاوے کی مشق بن کر رہ گئے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی سروے اور جائزہ رپورٹس آجاتی ہیں جو انتخابات کے بارے درست پیش گوئی کردیتی ہیں کہ کس سیاسی جماعت یا کس امیدوار نے کامیاب ہونا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں تو اب انتخابات ایک آئینی یا فرضی کارروائی سے زیادہ اہم نہیں رہے۔ ورنہ نتائج کا علم تو پہلے سے ہوجاتا ہے کہ کون سا امیدوار کتنے فی صد اپنے مخالف امیدوار سے آگے ہے۔ ایسے پروفیشنل ادارے اور افراد ہیں جو جدید ذرائع اور مہارت کا استعمال کرتے ہوئے پیشگی نتیجہ بتادیتے ہیں۔ یہ ادارے ایک طرح سے سائنسی بنیادوں پر مختلف سروے کروانے کا اہتمام کرتے ہیں کہ غلطی کی گنجائش ایک دو فی صد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ گو یہ ادارے اور افراد اپنی تکنیک اور طریقہ خفیہ رکھتے ہیں مگر ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ یہ حقیقت کے قریب ترین اندازے لگاسکتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انتخابات کے بارے میں ان کے اندازے یا تجزیہ درست ثابت ہوتے ہیں۔ دیگر لاتعداد سیاسی و سماجی اسباب کے ساتھ ساتھ دو وجوہات یا اسباب ایسے ہیں جن کے متعلق وثوق سے کہا جاتا ہے کہ انتخابات کے بارے درست پیش گوئی کرنے کے لیے انہیں سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے، ان میں ایک وجہ کسی لیڈر یا اس کی سیاسی جماعت کی عوام میں مقبولیت کا گراف ہے اور دوسری وجہ اس لیڈر یا اس کی سیاسی جماعت کے دور حکومت میں معیشت کی مجموعی صورت حال ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں درست اندازے لگانے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ خصوصاً ستر کی دہائی میں (1978ئ) Fair نے ملکی معیشت کے انتخابات پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ (1979ئ) Sigelman نے ماضی میں ہوئے انتخابات کا موجودہ انتخابات کے نتائج پر اثرات کا مطالعہ کیا۔ (1982ئ) Lewis-Beck & Rice نے موجودہ صدر کی مقبولیت اور اس دور میں معیشت کی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے آنے والے انتخابات کی درست پیش بینی کے لیے ایک نیا ماڈل تشکیل دیا۔ (1988ئ-2016 ئ) Abramowitz نے انتخابات کے بارے میں درست پیش بینی کے لیے وقت کی اہمیت کو بھی شامل کیا کہ پیش بینی کے لیے مناسب وقت کونسا ہے اور اس وقت لیڈرز کی مقبولیت کا گراف کیا ہے، اور ملکی معیشت کے اشاریے کیا بتا رہے ہیں۔ خصوصاً ک±ل خام قومی پیداوار کی حالت کیسی ہے۔ اسی طرح نئی صدی کے آغاز سے ہی دیگر مفکرین بھی انتخابات کی درست پیش گوئی کے لیے میدان میں آئے اور اپنے اپنے ماڈل پیش کیے۔ ان میں (1999ئ) Holbrook & DeSart نے ماضی میں کسی سیاسی جماعت کو حاصل کردہ ووٹ کی شرح کو بنیاد بنایا۔ (2004ئ) Wlezein & Erikson نے معاشی اشاریوں کے ساتھ ساتھ ماضی میں حکومتی پارٹی کو حاصل کردہ ووٹوں کی شرح کو اہمیت دی۔ (2014 ئ) Berg & Rietz نے پرائمری الیکشنز کو بنیاد بناکر اپنا ماڈل پیش کیا۔ دونوں حضرات آئیول یونیورسٹی میں سیاسیات کے معروف پروفیسر ہیں۔ اسی طرح بعد کے مفکرین نے سیاسی جماعتوں کی مقامی انتخابات میں کامیابی، اور مختلف ادروں کی طرف سے کرائے گئے انتخابی سرویز کو بھی انتخابات کی درست پیش گوئی کرنے کے لیے استعمال کیا۔ (2014ء) De Neve اور ان کے بعد (2016 ئ) Ford, اس کے بعد (2016ئ) Charles & Reid اور بعد ازاں (2017ئ) Munzert نے ٹائم سیریز سے متعلق اپنے اپنے ماڈل پیش کیے جن میں گذشتہ انتخابات میں حاصل کیے گیے ووٹوں کی شرح اور اس دوران معاشی ترقی کے اعدادوشمار کو زیادہ اہمیت دی۔
درج بالا سیاسیات کے پروفیسرز اور سیاسی مفکرین نے نہ صرف انتخابات کی پیشگی اطلاع کے لیے اپنے اپنے ماڈل پیش کیے بلکہ ان ماڈلز کو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ میں ہونے والے عام انتخابات پر لاگو بھی کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ماڈلز نے امریکی انتخابات کے بارے میں درست پیش گوئی کی ہے۔ پروفیسر رائس نے گذشتہ ایک درجن انتخابات کے بارے میں گیارہ مرتبہ درست اندازہ لگایا، وہ صرف 2000 ءکے عام انتخابات کی درست پیش گوئی نہ کرسکے جس میں ری پبلکن امیدوار جارج بش جونئیر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار الگور کے مقابلہ میں کامیاب قرار دیئے گیے۔ یاد رہے کہ ان انتخابات کا فیصلہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے سنایا تھا ، ورنہ ووٹوں کی گنتی میں تو الگور نے جارج بش جونئیر کو شکست دے دی تھے۔ لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے ہاتھ سے کی گئی گنتی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ، ووٹوں کی گنتی میں ہارے ہوئے امیدوار جارج بش کی کامیابی کا اعلان کردیا۔
مگر سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات کی پیش گوئی سے متعلق ان ماڈلز کو پاکستان کے آنے والے انتخابات کے بارے میں درست پیشین گوئی کے لیے استعمال جاسکتا ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ایسا بالکل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک مشکل درپیش ہے کہ ہمارے ہاں یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہے کہ آنے والے انتخابات کب ہوں گے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ آئندہ عام انتخابات اس سال کے اختتام پر ہوجائیں گے تو پھر اس بات کی پیش گوئی کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ کونسی سیاسی جماعت ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی اور اس کی کامیابی کے اسباب یا وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے ہم دو ایسے تغیرات کا جائزہ لیتے ہیں جو کم وبیش سب ماڈلز میں مشترک ہیں، ایک ہے راہنماو¿ں کی عوام میں مقبولیت اور دوسرا معاشی ترقی سے متعلق اعدادوشمار جس میں، خام قومی پیداوار، فی کس آمدنی، روزگار کے مواقع، بچتوں کی شرح، زرمبادلہ کے ذخائر، زرمبادلہ کے درمیان توازن یعنی تجارت اور سالانہ میزانیہ کا خسارہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ راہنما کی مقبولیت کے لیے، اس کی کرشماتی شخصیت، کارکردگی، سیاسی بیانیہ، اور مخصوص سیاسی حالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں تک موجودہ سیاسی راہنماو¿ں کی مقبولیت کے موازنہ کا تعلق ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پی۔ ڈی۔ ایم میں شامل جماعتوں کے تمام سیاسی راہنما بشمول وزیراعظم پاکستان، مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف، مریم نواز شریف، پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زردار ی سمیت کوئی راہنما عوامی مقبولیت کے اس مقام پر نہیں جو مقبولیت پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو حاصل ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ان کی مقبولیت اس وقت بھی ان راہنماو¿ں سے زیادہ تھی۔ مگر عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ ہٹائے جانے کے بعد ان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اب تک کیے گئے ملکی و غیر ملکی سروے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عمران خان اپنے مد مقابل سے کہیں تیس اور کہیں چالیس اور پچاس کے فرق سے آگے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی مقبولیت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے۔ ماڈلز یہ بتاتے ہیں کہ سیاسی راہنما کی مقبولیت آنے والے انتخابات میں اس راہنما اور اس کی سیاسی جماعت کی کامیابی میں نہایت اہم کردار کرتی ہے۔ اب بات کرلیتے ہیں دوسرے اہم تغیر معیشت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ معیشت کا موازنہ ماضی اور موجودہ معاشی اعدادوشمار کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ گو چند ماہ پہلے ایک معاشی اشاریہ بھی عمران خان کے حق میں نہیں تھا، اور مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی تھی، اسی طرح روپے کی قدر بھی کم ہورہی تھی، مگر عوام ان اعدادوشمار کو بھول جائیں گے اور موجودہ اعداد و شمار کو سامنے رکھیں گے۔ اوپر بیان کیے گیے کسی ایک معاشی اشاریہ کو لے لیں، پاکستان کی معیشت آئے روز پستی کی طرف جارہی ہے۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے۔ کوئی ذی شعور نہیں کہہ سکتا کہ یہ بدترین معاشی بدحالی کا دور نہیں ہے۔ ان معاشی حالات میں اگر کوئی شخص آنے والے انتخابات میں کامیابی کی ا±مید لگائے بیٹھا ہے تو وہ یقینا دیوانہ ہوسکتا ہے۔ حاصل بحث یہ کہ اگر عوامی مقبولیت اور معاشی اعدادوشمار میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی تو اس سال میں کسی بھی وقت ہوئے انتخابات میں حکومتی اتحاد کی شکست نوشتہ¿ دیوار ہے۔