بلوچستان کے علاقے مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد اور لیویز فورس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجہ میں 2 لیویز اہلکار شہید ہوگئے۔ دوسری جانب چمن میں پریس کلب کے قریب سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار زخمی ہوگیا جبکہ پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔
دو ہفتے قبل پشاور بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سینیٹ میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف واضح پالیسی ہونی چاہیے جبکہ ارکان قومی اسمبلی نے بھی اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پوری قوم کے ساتھ مل کر دہشت گردوں سے لڑنا ہوگا۔ دہشت گردی کیخلاف سینیٹ اور قومی اسمبلی کے فلور پر کئے جانیوالے فیصلے خوش آئند اور اطمینان بخش ہیں مگر ان فیصلوں کو اسی صورت میں مو¿ثر بنایا جا سکتا ہے جب سیاست دان آپس کی چپقلش ختم کرکے دہشت گردی کیخلاف متحد ہو جائیں تاکہ ملک دشمن عناصر کو قومی یکجہتی کا ٹھوس پیغام دیا جا سکے۔ دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیوں سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ہمارے دفاعی نظام میں کہیں نہ کہیں سقم موجود ہے جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سکیورٹی نظام کا ازسرنو جائزہ لیا جائے‘ اسے مو¿ثر بنانے کیلئے مزید اقدامات کئے جائیں۔ اگر غفلت کے باعث دہشت گردوں کو کارروائی کرنے کا موقع مل رہا ہے تو سرکاری سطح پر اس کا سخت نوٹس لیا جانا چاہیے۔ کالعدم تنظیموں پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھمکی دیکر ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع بھی کردی ہیں، دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں اسی کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں‘اسکے نیٹ ورک کو توڑنے کی اشد ضرورت ہے۔