پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے بالآخر تحریک انصاف میں اپنے ساتھیوں سمیت شمولیت اختیار کر لی ہے۔ شمولیت کا اعلان انہوں نے چیئرمین عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد کیا۔ انکے اس اعلان سے پہلے ہی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ عمران خان اور انکی جماعت کے دیگر قائدین نے پرویزالٰہی کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہا ہے اور انہیں پی ٹی آئی کا مرکزی صدر بنانے کی منظوری بھی دیدی ہے۔
پی ٹی آئی میں ہونے والی اس پیش رفت کے علی الرغم پارٹی کی طرف سے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اور الیکشن کراﺅ ، ملک بچاﺅ کے نعرے کے ساتھ صوبائی دارالحکومت لاہور سے جیل بھرو تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی پی ٹی آئی کے عہدیداران اور کارکن مرحلہ وار گرفتاریاں پیش کریں گے۔ پارٹی کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ گرفتاریاں نہ ہونے کی صورت میں اسی مقام پر دھرنا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی اس جیل بھرو تحریک کے جواب میں اتحادی حکومت نے بھی حکمت عملی وضع کر لی ہے۔ ملک کی سیاست میں پیدا ہونے والی اس نئی صورتحال کے موجودہ سسٹم پر کیا مضر اثرات مرتب ہوتے اور آنے والے دنوں میں اس کی کیا صورت گری ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا‘ لیکن صدرمملکت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک خود اس انتخابی عمل کو سبوتاژ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی ملک میں آئینی مدت کے اندر آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی خواہاں ہے تو اسے اس کیلئے نہ صرف سازگار ماحول پیدا کرنا چاہئے بلکہ اس کےلئے تیاری اور لائحہ عمل بھی طے کرنا چاہئے تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔