قومی احتساب بیورو (نیب) نے توشہ خانہ کیس کی تحقیقات کیلئے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 9 مارچ کو راولپنڈی آفس میں طلب کرلیا۔ نیب اسلام آباد کی طرف سے عمران خان کو انکے بنی گالہ اور چک شہزاد اسلام آباد کے گھروں پر نوٹس بھجوائے گئے ہیں جن میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ملنے والے تحائف کو خلافِ قانون فروخت کیا۔ انہیں نیب آفس میں اپنی حاضری یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔ اسی طرح نیب کی جانب سے سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو بھی آٹھ مارچ کو طلب کیا گیا ہے جبکہ نیب نے توشہ خانہ کے انچارج سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی قائدین پرویز خٹک اور فواد چودھری کو بھی اسی کیس میں بالترتیب سات اور آٹھ مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ منگل کے روز چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے اپنے منصب سے استعفیٰ دیا جو وزیراعظم شہبازشریف نے منظور کرلیا جبکہ ان کا استعفیٰ منظور ہونے کے ساتھ ہی عمران خان اور انکی اہلیہ سمیت پی ٹی آئی قائدین کو توشہ خانہ کیس میں نیب کی جانب سے طلبی کے نوٹس بھجوا دیئے گئے۔ چیئرمین نیب نے مستعفی ہونے کے بعد اپنے الوداعی خطاب میں دعویٰ کیا کہ ان پر کسی کے بھائی کو چھوڑنے اور کسی کو گرفتار کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا جارہا تھا مگر انہیں مداخلت قبول نہیں‘ وہ کسی کیخلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتے۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے دوران کسی دباﺅ کے سامنے نہیں جھکے اور قانون کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
چیئرمین نیب کے مستعفی ہونے کے فوری بعد نیب کی جانب سے عمران خان اور انکے ساتھیوں کیخلاف توشہ خانہ کیس میں طلبی کے نوٹسوں کا اجراءبادی النظر میں یہ ظاہر کررہا ہے کہ چیئرمین نیب توشہ خانہ کیس میں عمران خان کیخلاف قانونی اور عدالتی کارروائی کا آغاز نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ ممکن ہے اور بھی ایسے مقدمات ہوں جن کے حوالے سے چیئرمین نیب کو کسی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ انہیں مستعفی ہونے کے بعد بہرصورت حقائق سے پردہ اٹھانا چاہیے کہ انہیں کس معاملے میں کس کی جانب سے دباﺅ کا سامنا تھا تاکہ انکے دعوے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی قمرالزمان کائرہ نے بھی مستعفی ہونیوالے چیئرمین نیب سے یہی تقاضا کیا ہے جبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بقول چیئرمین نیب کے استعفیٰ نے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ یقیناً کئی سوالات تو چیئرمین نیب کے استعفیٰ کے فوری بعد پی ٹی آئی قیادت کیخلاف نیب کے حرکت میں آنے سے بھی پیدا ہوئے ہیں تاہم اصل سوال قوم کے ذہنوں میں آج بھی اٹکا ہوا ہے کہ کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کیلئے احتساب بیورو، نیب اور دوسرے متعلقہ اداروں کی جانب سے آج تک صحیح معنوں میں بے لاگ احتساب کا خواب کیوں شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو پایا۔ 2018ءسے پہلے تک احتساب کے ادارے کے حوالے سے یہی عمومی تاثر پختہ ہو چکا تھا کہ ہر حکومت اس ادارے میں اپنے کسی کٹھ پتلی کا بطور چیئرمین تقرر کرکے اسے اپنے مخالفین کیخلاف انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ماضی کے ادوار حکومت میں ایسی کئی مثالیں بھی سامنے آتی رہیں جن پر ان جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے سے شکوہ سنج بھی رہے اور پھر اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 2018ءکی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم میں نیب کے ادارے کو خودمختار بنانے کی شق بھی منظور کی گئی تاکہ چیئرمین نیب حکومتی دباﺅ سمیت کسی بھی دباﺅ سے آزاد ہو کر بے لاگ احتساب کے تقاضے پورے کر سکیں۔ اس کیلئے چیئرمین نیب کے تقرر کا قانونی طریقہ کار یکسر تبدیل کردیا گیا اور اس تقرر کا صوابدیدی اختیار وزیراعظم سے لے کر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے یہ تقرر عمل میں لانا طے کیا گیا۔
اگر 18ویں آئینی ترمیم کی روح کے مطابق احتساب کے ادارے کو مکمل آزاد و خودمختار بنانا مقصود ہوتا تو شاید آج آفتاب سلطان کی جانب سے چیئرمین نیب کے منصب سے مستعفی ہونے کی نوبت نہ آتی مگر ہمارا یہی المیہ ہے کہ ہمارا کوئی بھی حکمران نیب کے ایسے قوانین اور کردار کو خوش دلی سے قبول کرنے کو تیار نہیں جس سے اسے خود بھی نیب کے شکنجے میں آنے کا خدشہ لاحق ہو۔ چونکہ ہمارے سیاسی کلچر کو اس تصور کے تحت ہی پروان چڑھایا گیا ہے کہ ہر حربہ اختیار کرکے اپوزیشن کو دبائے رکھا جائے اور اسے دیوار سے لگا کر اہل اقتدار کی من مانیوں کیخلاف کوئی آواز نہ اٹھنے دی جائے اس لئے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت نیب کو خودمختار بنانے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں ہی کو نہیں‘ پی ٹی آئی قیادت کو بھی نیب کی مکمل خودمختاری قبول نہ ہوئی اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے بلیک میل کرکے اپوزیشن کیخلاف کارروائیاں تیز کرنے کی راہ پر لگا دیا گیا جس سے نیب کا سابقہ تصور ہی عود کر آیا کہ حکومتی مخالفین کو دبائے رکھنے کیلئے یہ ادارہ ہی حکمرانوں کا مو¿ثر ہتھیار ہے۔ پی ٹی آئی دور میں اسی تناظر میں جہاں چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا گیا وہیں نیب کے قانون میں پارلیمنٹ کے ذریعے بعض ترامیم لا کر اسکے پر کاٹنے کا حربہ بھی اختیار کیا گیا۔ اس سے نیب کا ادارہ حکمران طبقات کیلئے بے ضرر ہو گیا کیونکہ حکومت کے جن عہدیداروں کیخلاف نیب کے مقدمات درج تھے‘ وہ نئے قوانین کے ذریعے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکال لئے گئے۔ یہی کام بعدازاں پی ٹی آئی کی مخالف اتحادی جماعتوں نے اپنے دور حکومت میں کیا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی ارکان کی قومی اسمبلی میں عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کر نیب کے قوانین میں مزید ترامیم کیں اور اس طرح اپنے خلاف درج نیب کے مقدمات سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ اس حوالے سے گزشتہ روز نیب قوانین میں ترمیم سے متعلق پارلیمنٹ کی کارروائی کیخلاف ایک شہری کی دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے روبرو جو بیان دیا وہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے بے لاگ احتساب کے تصور کی دھجیاں اڑانے کی تصدیق کرتا نظر آیا۔ انکے بقول نیب ترامیم سے 2019ءسے اب تک نیب آرڈیننس کے تحت دائر 221 ریفرنسز واپس ہوئے ہیں۔ ان میں 29 سیاست دانوں کیخلاف ریفرنس بھی شامل ہیں جبکہ متذکرہ نیب ترامیم کے باعث 2019ءسے اب تک نیب کے 41 ملزمان بری ہوئے جن میں پانچ سیاست دان بھی شامل ہیں۔ مخدوم علی خان کے بقول نیب ترامیم کے باعث بری ہونے یا ان ترامیم سے فائدہ حاصل کرنیوالے سیاست دانوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے تاہم یہ نمایاں سیاست دان ہیں۔ یقیناً یہ سیاست دان حکمران طبقات میں ہی شامل ہونگے جنہوں نے اپنے ادوار میں نیب قوانین میں ترامیم کرائیں تو ان ترامیم کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔
مستعفی ہونیوالے چیئرمین نیب کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتی دباﺅ کے باوجود نیب کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت میں چلانے کی کوشش کی جن کے اس غیرجانبدارانہ کردار کو سابق وزیراعظم عمران خان ہی نہیں موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے بھی تسلیم کیا ہے۔ چیئرمین نیب کی طاقت تو نیب کے قوانین ہی ہوتے ہیں جن میں ترامیم در ترامیم کرکے نیب کے ادارے کو اتنا غیرمو¿ثر بنا دیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کیلئے نیب کی خودمختاری کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ بے ضرر نیب قوانین کی موجودگی میں نیب کے ذریعے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ صورتحال ہمارے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کیلئے لمحہ¿ فکریہ ضرور ہونی چاہیے۔