پنجاب سیف سٹی اتھارٹی امن وامان کی ضمانت۔


محمد فیصل افضل
طویل القامت آفیسر بڑی شان و شوکت کے ساتھ چیف آپریٹنگ آفیسر کے کمرے کی جانب بڑھے تو میں نے گکھڑ سیف سٹی کے انجینیئر اعزاز اصغر ساہی کے کان میں سر گوشی کی کہ باڈی لینگویج سے تو ڈی آئی جی کامران خان لگتے ہیں مگر ہاتھ میں بریف کیس دیکھ کر سب آرڈینیٹر ہونے کا گمان ہاوی رہا۔چند لمحوں کے بعد ایک آفیسر نے کہا کہ یہی چیف آپریٹنگ آفیسر ہیں اور آپ ملاقات کر سکتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں جناب کامران خان صاحب نے ہمیں اپنے روایتی نفیس انداز میں ہوسٹ کیا اور پنجاب کے سیف سٹیز پر سیر حاصل گفتگو کی۔انہوں نے اہلیان گکھڑ کے پراجیکٹ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپکو تکنیکی اعتبار سے کوئی بھی رہنمائی یا سہولت درکار ہو تو ہم تعاون کریں گے۔ بطور پراجیکٹ ہیڈ میں نے انہیں گکھڑ آنے کی دعوت دی اور اپنی تصنیف بھی پیش کی۔ انہوں نے دعوت کو قبول کرلیا۔ڈی آئی جی صاحب کی ہدایات پر میڈیا کوآرڈینیٹر بینسن رابنسن نے بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ہمیں سیف سٹی اتھارٹی کے دفاتر، ڈیسکس،میڈیا سٹوڈیو اور میگا کنٹرول روم کاتعارفی دورہ کرایا۔ڈائیریکٹر پبلک ریلیشنز جناب توصیف صبیح گوندل صاحب نے جیسا بتایا سسٹم کو اس سے بھی اچھا پایا۔
انکی طرف سے بتائی گئی تفصیلات اور اعدادو شمار ہمارے لئے انتہائی حیران کن تھیں۔ جنکی تفصیل درج ذیل ہے۔
2015 میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد پنجاب کے اہم شہروں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کاقیام عمل میں لا کرشہریوں کا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تحفظ کر کے امن و امان اور قانون کی بالا دستی کو قائم کیا جا سکے۔ابتدائی مراحل میں لاہور ، سرگودھا، فیصل آباد ،گوجرانوالہ، ملتان،راولپنڈی ،بہاولپور،شیخوپورہ اور سیالکوٹ جیسے بڑے شہر شامل ہیں۔ صرف لاہور شہر میں 2 ہزار لوکیشنز پر 10 ہزار کیمرے پلان میں شامل ہیں۔اس جامع نظام کی مدد سے منظم ٹریفک سسٹم، الیکٹرونک چالان سسٹم، وومن سیفٹی ایپ،برقی ثبوتوں کا مجموعہ، جرائم میں کمی،محفوظ پولیس، سموگ سے بچاؤ کی حکمت عملی ،تلاش گمشدگان ،ٹریفک الرٹ سسٹم،پتنگ بازی و ہوائی فائرنگ پر نظر،ایمبولینس کو راستہ فراہم کرانا،انٹر نیشنل کرکٹ میچز اور پی ایس ایل کو محفوظ بنانا،لا پتہ افراد کو اپنوں سے ملوانا،15 کال سنٹرکو فعال بنانا،لاوارث اشیاء اور مشکوک سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا،طلباء کی تربیت کرنا،اغواء کاری پر کنٹرول ،چوری شدہ گاڑیایوں اور موٹر سائیکلوں پر نظر،سڑکوں پر لگے پرائیویٹ 8 لاکھ کیمروں کو سسٹم میں شامل کرنا, کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ کی حوصلہ شکنی،ڈرائیونگ و ٹریفک قوانین کی پابندی کروانا شامل ہیں۔
کنٹرول روم میں ایشیاء کی سب سے بڑی ڈسپلے وال بنائی گء ہے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔اور پولیس سمیت دیگر انٹیلیجنس ادارے بھی مونیٹرنگ پر مامور ہیں۔ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے تحت بسوں اور ٹرینوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ٹریفک قوانین کی وائلیشن پر تقریباً 10 ہزار ای چالان روازنہ کئے جاتے ہیں۔سموگ ایمینٹنگ وہیکل پر کنٹرول کیا جاتا ہے،120 ٹریفک سگنلز کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔پرو ایکٹو پولیسنگ سسٹم کے ذریعے تین لاکھ ریسپانس دئیے جاتے ہیں۔ کسی بھی شہری کو واردات یا حادثے کی فوٹیج یا ثبوت حاصل کرنے کیلئے متعلقہ تھانے کی ایف آئی آر اور تفتیشی افسر کے ہمراہ قربان لین آفس آنا ہو گا۔پکار 15 پر پنجاب پھر سے روزانہ 60 ہزار کالز موصول ہوتی ہیں جنکاچند سیکنڈز میں ریسپانس دیا جاتا ہے۔پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی نے ون فائیو(15) ہیلپ لائن کالز ریکارڈجاری کیا جس کے مطابق گزشتہ ماہ لاہورسمیت پنجاب بھر سے 23لاکھ 68ہزار284 کالز موصول ہوئیں۔
2لاکھ 2 ہزار66کالز پر پولیس کی مدد فراہم کی گئی۔
مختلف معلومات کے حصول کیلئے37 ہزار751 کالز موصول ہوئیں جن میں تقریباً 14 لاکھ سے زائد غیر متعلقہ کالز تھیں جن سے وسائل اور وقت کا بڑا نقصان ہوتا ہے اس حوالے سے عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔میڈیا سٹوڈیو سے روزانہ آگاہی کے پروگرام اور انٹرویوز بھی سوشل میڈیا پر نشر کئے جاتے ہیں۔الغرض ہر چیز سٹیٹ آف دی آرٹ ہے اور موجودہ امن و امان اور نظام کی روانی کا کریڈٹ سیف سٹی اتھارٹی کو ہی جاتا ہے۔ آئیندہ چند سالوں میں یہ نظام پورے ملک کے چپے چپے کی اشد ترین ضرورت ہے۔ اور اسی سلسلے میں چھوٹے شہروں کیلئے گکھڑ ایک روشن مثال ہے۔

ای پیپر دی نیشن