لقمان شیخ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ غریبوں کا خیال کرے اور امیروں پر مزید ٹیکس لگائے کیونکہ ملک اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے عالمی قرض دہندہ سے فنڈز چاہتا ہے۔
میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر ایک نشریاتی ادارے کے ساتھ بات کرتے ہوئے، آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا: "ہم جو کچھ پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان کو ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے قابل ہونے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلابوں کا اعتراف کرتے ہوئے، جس نے پاکستان کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ڈوب گیا اور 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا، آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اپنے غریبوں کی حفاظت کرے۔ ہم دو چیزوں پر زور دے رہے ہیں۔ نمبر ایک، ٹیکس ریونیو ان لوگوں سے اکھٹا کیا جائے جو اچھا پیسہ کما رہے ہیں اور پبلک یا پرائیویٹ سیکٹر کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے.
دوسرا یہ کہ سبسڈی کو صرف ان لوگوں کی طرف منتقل کرکے دباؤ کی منصفانہ تقسیم کی جائے جن کو حقیقتاً اس کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سبسڈی سے امیر مستفید ہوں۔ غریبوں کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔جارجیوا کے یہ تبصرے آئی ایم ایف کے وفد کے اسلام آباد کے 10 روزہ دورے کے بعد سامنے آئے، جس کے نتیجے میں دونوں فریقین ایک معاہدے پر دستخط کرنے میں ناکام رہے جس سے پاکستان کو فوری طور پر درکار 1.1 بلین ڈالر کی قسط کھل جائے گی۔تاہم، 10 فروری کو آئی ایم ایف کی ٹیم کے جانے کے بعد، پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے رقم جاری کرنے سے پہلے فنڈ کی جانب سے مقرر کردہ شرائط سے اتفاق کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈار نے پارلیمنٹ میں 643 ملین ڈالر کا فنانس بل پیش کیا، جس میں ٹیکسوں میں اضافے اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے اقدامات شامل تھے۔
چونکہ پاکستان اور آئی ایم ایف عملی طور پر مشغول ہیں، قرض دہندہ نے ملک کو مالیاتی اقدامات پر عمل درآمد کے لیے 1 مارچ کی ڈیڈ لائن دی ہے۔پاکستان نے 2019 میں 6 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام لیا، جسے پچھلے سال 6.5 بلین ڈالر تک بڑھا دیا گیا۔ اس نے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے حصے کے طور پر پچھلے سال اگست میں $1.17bn کی قسط حاصل کی۔ نویں جائزے میں تاخیر ہوئی ہے، جس نے 220 ملین لوگوں کو کنارے پر دھکیل دیا ہے۔ مرکزی بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کے غیر ملکی ذخائر صرف 3 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں، جو تین ہفتوں سے بھی کم درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ماہر معاشیات کے مطابق ، ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ایک جمود کا شکار معیشت پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے سے معیشت مزید سکڑ جائے گی، جس سے بے روزگاری اور غربت مزید بڑھے گی۔
پی ڈی ایم نے منی بجٹ پیش کر کے مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا ہے.۔ منی بجٹ میں لگڑری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 سے بڑھا کر 25 فیصد ہو گیا ہے ۔منی بجٹ کے حوالے سے سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق، لگڑری آئٹمز پر سیلز ٹیکس بڑھانے سے 4 ماہ میں 15 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ امپورٹڈ الیکٹرونکس آئٹمز پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جا رہا ہے۔خواتین کے لیے امپورٹڈ میک اپ کے سامان پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد ہوگا۔ پالتو جانوروں کی امپورٹڈ خوراک پر سیلز ٹیکس 17 سے بڑھا کر 25 فیصد کیا جارہا ہے۔امپورٹڈ برانڈڈ شوز پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد کی جارہی ہے، خواتین کے لیے امپورٹڈ برانڈز پرس، ٹریولنگ بیگ، سوٹ کیس، شیمپو، صابن اور لوشن پر بھی سیلزٹیکس25 فیصد کیا جارہا ہے۔مردوں کے لیے امپورٹڈ شیونگ کریم، شیونگ جیل، سن گلاسز اور پرفیومز پر بھی سیلزٹیکس کی شرح 25 فیصد کی جا رہی ہے۔امپورٹڈ پرائیوٹ اسلحہ پر بھی سیلز ٹیکس17 سے بڑھا کر 25 فیصد کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ، امپورٹڈ برانڈڈ ہیڈ فونز، ا?ئی پوڈ اور اسپیکرز پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد ہوگا۔یہی نہیں امپورٹڈ لگڑری برتنوں پر بھی سیلز ٹیکس 17 سے بڑھ کر 25 فیصد ہوگا۔امپورٹڈ گاڑیوں اورموسیقی کے امپورٹڈ ا?لات پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 25 فیصد کردی جائے گی۔دستاویز کے مطابق، امپورٹڈ بسکٹ، کیک، بیکری آئٹمز، چاکلیٹ،کینڈیز،ڈبہ پیک امپورٹڈ مچھلی اور مشرومز،ڈرائی اسنیکس، کارن فلیکس اور پاستہ پر سیلز ٹیکس 25 فیصد ہوگا۔
امپورٹڈ منرل واٹر، انرجی ڈرنکس اور امپورٹڈ جوسز پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد کیا جارہا ہے۔ امپورٹڈ دروازوں، کھڑکیوں،فرنیچر، لکڑی کے شو پیس،کارپٹس، اسپرنگ میٹرس اور تکیوں پر بھیسیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد کی جارہی ہے۔باتھ روم فٹنگز،ٹائلز،سینیٹری کے سامان پر، امپورٹڈ فانوس، فینسی لائٹس پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد ہوگی۔پٹرول 272 کا ہو گیا ہے بجلی بھی مہنگی ہو گئی ہے. شہباز شریف حکومت نے غریب کا چولہا بند کر دیا ہے. لوگ کی آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں. 30،40 ہزار کمانے والے افراد کا گزارا کرنا مشکل ہو گیا ہے. سفید پوش لوگ فاقے کر رہے ہیں. وہ لوگ جن کو اللہ نے بہت دیا ہے اور خیرات کرتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اردگرد نظر رکھیں اور ایسے افراد کی مدد کریں جن کا گزر بسر مشکل ہو گیا ہے۔