مصنوعی خوف اور نشان منزل


تحریر: محمد عثمان
 قدرت نے ہر خطہ ارضی کو وسائل سے نوازا ہے لیکن کوئی بھی قوم صرف دستیاب قدرتی وسائل کے ذریعے ہی ترقی نہیں کرتی بلکہ یہ وسائل کا درست طریقے سے استعمال کرکے اور رہنمائی سے ہی ترقی و کامرانی کی منازل طے کرتی ہیں۔ درست طریقہ کیا ہے یہ کون بتاتا؟ یہ نہ ہی وسائل خودبتاتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی تختی آویزاں ہوتی ہے کہ یہ یونیورسل طریقہ ہے اور آپ کے پاس ان وسائل سے سرمایہ آنا شروع ہوجائے گا۔ یہ طریقہ کون بتاتا ہے اس کا جواب تو انتہائی سادہ ہے کہ اس قوم کے قائدین، یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائدین کیسے ہوتے ہیں ان میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں اور وہ کہاں سے آتے ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ ان قائدین کی کوئی اور خوبی ہو یا نہ ہو یہ مقرر اور خطیب کمال کے ہوتے ہیں بات کرنے کے انداز سے لے کر سامنے بیٹھنے والے کو قائل کرنے تک کے ماہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت سے ایسے مقررین سے نوازا ہے جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہمارے وہ رہنماء جنہوں نے اپنی تقریراور گفتگو سے نا صرف پاکستان کی پہچان کروائی بلکہ دنیا کے بارے میں بھی بتایا کہ باقی دنیا کیا سوچتی ہے اور ہمیں کیا سوچنا چاہیئے۔ یہ دور اگرچہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس کے ذریعے ہی آج کل معلومات کا تبادلہ ہورہا ہے آن لائن لیکچر سے لے کر آن لائن کاروبار کے بارے میں ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چل رہا ہے تاہم جو معلومات ہمیں سامنے لیکچر دیتے ہوئے مقرر سے ملتی ہے وہ زیادہ پُر اثر اور پُرتاثیر ہوتی ہے لیکن اس کے باجود ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ ہر وقت مشاہدات کے ساتھ معلومات کا متلاشی رہتا ہے۔ یہاں پر افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال صرف یکطرفہ کررہے ہیں اور اپنی پسند و ناپسند کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے اپنے ذہنوں پر مصنوعی خوف طاری کرکے خودساختہ بت تراش کر ان کی پرستش کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر نتائج بھی ہم اپنی پسند کا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر نتائج اے پلس گریڈ یا کم از کم اے گریڈ سے نیچے آجائیں (جیسا کہ آج کل بچوں سے توقع کرتے ہیں) تو پورے کے پورے معاشرے اور سسٹم کو قصور وار ٹھہرادیتے ہیں۔ بہت عرصہ سے میری یہ خواہش تھی کہ اس مصنوعی خوف کے بارے میں ضرور لکھوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ہماری قوم ایک فورم پر اکٹھی ہو اور ہم اپنے ذہنوں میں تازہ کریں کہ نشان منزل کیا ہے؟ مصنوعی خوف کو اتارنے اور جذبہ حب الوطنی کو بیدار کرنے کے لئے یونیورسٹی آف سرگودھا اور حکومت پنجاب کے زیر اہتمام ایک خصوصی مقالمے ’’منزل پاکستان‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں وطن عزیز کے نامور اسپیکر اور اسکالر قاسم علی شاہ نے اپنے خطاب سے روایتی انداز میں الفاظ کا جادو چلایا لیکن حقیقت میں وہ طالب علموں کے ایک بہت بڑا سبق چھوڑ گئے جس کے بارے میں اب ہمیں سوچنا اور اپنے ذہنوں میں نشانِ منزل تازہ کرنا ہے اور کس طرح مصنوعی خوف کو دور کرنا ہے۔ قاسم علی شاہ کی آمد پر یونیورسٹی آف سرگودھا کے طالب علموں نے ان کا ایک معزز استاد اور عظیم مہمان کی طرح بھرپور استعمال کیا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خطاب کے شروع میں کیا کہ میں بہت سے تعلیمی اداروں میں گیا اور مستقبل کے معماروں اور روشن چہروں سے مخاطب ہوا لیکن جو پیار بھرا استقبال میرے طالب علم بچوں نے یہاںکیا وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یونیورسٹی آف سرگودھا حقیقت میں پنجاب کی صفِ اوّل کی جامعہ ہے جس میں قیام سے لے کر آج تک کوئی بھی انتظامی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس اور ان کی ساری ٹیم صحیح معنوں میں مبارک باد کی مستحق ہے جن کا ادارہ درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ ’’منزل پاکستان ‘‘کے عنوان سے تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا۔ ملک فیروز خان نون بزنس سکول یونیورسٹی آف سرگودھا میں موجود تمام طالب علموں، اساتذہ کرام اور انتظامی افسران نے یک زبان ہو کر نہ صرف قومی ترانہ پڑھا بلکہ پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کئے تو وطن عزیز کا پرچم نم آنکھوں کے سامنے بلند ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض شعبہ اُردو کے مایہ ناز استاد ڈاکٹر طارق حبیب نے سر انجام دئیے انہوں نے اس موقع پر کہا کہ قاسم علی شاہ اب تک 25000 سیمینارز میں شرکت کرچکے ہیں اور 2019 میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کئے جانے والی شخصیات کا ریکارڈ بھی قائم کرچکے ہیں اور آج کے مقالمے سے طالب علموں کو ایک نئی سوچ ، تحریک اورکام کرنے کا جذبہ بھی ملے گا۔تقریب میں ڈائریکٹر یو ایم سی آر سی پروفیسر ڈاکٹر الیاس طارق، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر محمود الحسن، ریذیڈنٹ آفیسر فہیم ارشد، ڈائریکٹر ہم نصابی فورم ڈاکٹر محمد منیر گجر ، شعبہ ایلومینائی کے انچارج سلمان حسن پراچہ، مختلف شعبہ جات کے صدور، اساتذہ اور طالب علموں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ صدارت کے فرائض ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینٹیز پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس گوندل نے ادا کئے۔ اپنے خصوصی خطاب میں قاسم علی شاہ نے کہا کہ ایک پائیدار ترقی یافتہ‘ پر امن اور فلاحی معاشرہ کے قیام کے لئے ہمیں اپنے ہی قائم کردہ مصنوعی خوف سے باہر آنا ہوگا۔ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہیں جو اپنی سوچ کو مثبت اور تعمیری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ایسے لوگوں کا نام نہ صرف ہمیشہ قائم دائم بلکہ رہتی دنیا تک زندہ و جاویدرہتا ہے۔ د نیا میں انہی لوگوں نے ترقی کی جنہوں نے اپنے عمدہ کردار کی تشکیل کے ساتھ محنت، جرأت، مستقل مزاجی اور خوف سے مبرا ہو کر کام کیا اور ایسے لوگوں کا مقصد حیات اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے جینا ہوتا ہے۔ قاسم علی شاہ نے مزید کہا کہ معلوم کو ہی علم سمجھنا ضروری نہیں بلکہ نامعلوم اور تسخیر کائنات کے لئے ہی آگے بڑھنا دراصل علم حاصل کرنے کا مقصد ہے اور جو بغیر مقصد کے اس دنیا میں جیتے ہیں۔وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ معاشرے کے لئے ایک ایسے بوجھ کی مانند ہیں جن کے دبائو سے معاشرہ پست ہوتا چلا جاتا ہے انہوں نے اس موقع پر طالب علموں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ کامیابی اور کسی مقام پر پہنچے میں مت گھبرائیں بس کوشش کرتے جائیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریںوقت آنے پر انسان کو اس کی محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اس موقع پر مجھے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا شعریاد آگیا:
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
  خصوصی مقالمے سے خطاب کرتے ہوئے ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومنٹیز پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس گوندل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت سے نامور خطیبوں اور سکالرز سے نوازا ہے اور قاسم علی شاہ ہمارے صف اوّل کے نامور مقرر اور نوجوان سکالر ہیں جو ہمیشہ سے نوجوانوں کے ساتھ عمر کے ہر حصّے کے لوگوں کو جینے کا سلیقہ اور آگے بڑھنے کا طریقہ بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور مضبوط ریاست بنانے کے لئے اپنے اندر تعمیری جذبہ پیدا کریں اور نشان منزل تازہ کرتے ہوئے حوصلہ پیدا کریں کہ ہم نے پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی اور ترقی یافتہ مملکت کیسے بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان اپنی ٹانگوں پر نہیں حوصلہ سے چلتا ہے اور یہ حوصلہ ہمیں قاسم علی شاہ جیسے موٹیویشنل مقرر بتاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس گوندل نے مزید کہا کہ یہ ہمارے لئے بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم یونیورسٹی آف سرگودھا میں اپنے طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت اس سمت میں کررہے ہیں کہ انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے ساتھ ان کے ذہنوں میں قیام پاکستان کی اہمیت اور مقصد اجاگر کررہے ہیں اور یہی آج کے مقالمے کے اہتمام کا مقصد ہے۔ تقریب کے اختتام پر یونیورسٹی آف سرگودھا کی جانب سے قاسم علی شاہ کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی۔ مقالمے کا اختتام ہوگیا لیکن ہماری نوجوان نسل کو اپنے ذہنوں میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ مہمان مقرر نے جو باتیں کہیں اور جس منزل کی طرف اشارہ دیا وہ ان شاء اللہ اب دور نہیں۔یہ موجودہ مسائل عارضی ہیں بس ہمیں اپنے ذہنوں سے خوف کو اتارنا ہے۔ پاکستان ہماری منزل ہے اور مملکت خداداد قائم رہنے کے لئے بنی ہے اور تاقیامت قائم رہے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن