٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قومی افق
ندیم بسرا
سیاسی قوتیں عوام میں اپنا ووٹ بنک قائم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے شروع ہونے والا سیاسی بحران ابھی تک ختم نہیں ہوامگر پی ٹی آئی اس سیاسی بحران میں بھی مضبوط ہوتی جارہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کو چودھری پرویز الٰہی کی شکل میں ایک بڑا کھلاڑی مل گیا ہے جس سے عمران خان کی ٹیم مزید مضبوط ہوگئی ہے۔چودھری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کی انٹری بھی مدتوں یاد رکھی جائے گی چودھری پرویز الٰہی نے اپنی سیاسی وراثت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے چودھریوں کا پاکستان کی سیاست میں بڑا اہم کردار ہے۔ان کو صدر پی ٹی آئی بنائے جانے کے بعد یقینا پارٹی کو ایک سینئر سیاستدان کا ساتھ اور ویژن میسر آئے گا جو پارٹی کے لیے ایک بہترین کام کرے گا کیونکہ سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا فن چودھری پرویز الٰہی کو بخوبی آتا ہے۔پارٹی ان کے وسیع تجربے سے فائدہ ضرور اٹھائے گی عمران خان کا چودھری پرویز الٰہی کو اپنی پارٹی میں لینا اور خود چودھری پرویز الٰہی کا پی ٹی آئی میںجانا کسی حکمت اور تدبیر کے بغیر نہیں ہوگا۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے الیکشن کی تاریخ کے مطالبہ کے بعداب لاہور میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے جارہی ہے اس کی کامیابی کس حد تک ہوتی ہے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جس میں عوام سڑکوں کے دونوں اطراف میں پھول،پرچم اٹھائے عمران خان سے جو یکجہتی کررہے تھے وہ جذبہ واقعی دیدنی تھا۔پی ٹی آئی اس پر مبارکباد کی مستحق ہے اب جیل بھرو تحریک کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں بھی کامیابی انہیں کے حصے میں آیے گی۔پاکستان تحریک انصاف کو ایک منظم جماعت کے طور پر سامنے آنا ہوگا تاکہ اس کی سنجیدگی میں لوگ زیادہ سے زیادہ شمولیت اختیار کریں ملک پاکستان کے معاشی حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں پی ڈی ایم آل پارٹیز کانفرنس کے اعلان کے بعد مکمل خاموشی اختیار کرگئی جس کے بعد ڈپلومیسی کی کھلنے والی راہ بھی بند ہونا شروع ہوگی ہے۔اگر تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے بعد حالات خراب ہوتے ہیں تو ذمہ دار کون ہوگا اس کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔مصالحت اور جوڑتوڑ کے ماہر آصف علی زرداری کہاں ہیں وہ موجودہ حالات میں بالکل خاموش ہیں بلاول بھٹو اب تک درجنوں ممالک کے دورے کر چکے ہیں وہ بھی موجودہ حالات سے منہ موڑے ہوئے ہیں کبھی کبھار ایک آدھا بیان دے دیتے ہیں۔اس وقت امتحان گاہ میں شہباز شریف اور ان کے قریبی دوست ہی ہیں مریم نواز پہلے ہی ان چیزوںسے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہیں تو پھر اس بھنور سے شہباز شریف کو خود ہی نکلنا ہوگا اور مصالحت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت عوام کا جذبہ و جنون تو عمران خان کے ساتھ ہی نظر آرہا ہے۔اب کیا اس کا حل واقعی ضمنی اور عام انتخابات ہیں تو اس کے لیے صدر مملکت عارف علوی اعلان اور تاریخ دے چکے ہیں جس نے ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ اب جبکہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں وقت دینے کو تیار نہیں تھیں مگر صدر مملکت کی طرف سے الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے۔جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے سے شروع ہونے والی کہانی چند ہفتوں کے وقفے اور صدر مملکت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد دھندلا چکی ہے۔اور اب تازہ سیاسی منظر نامے میں ہر طرف پریشانی ہی پریشانی نظر آ رھی ہے۔ اتحادی جماعتوں کی طرف سے ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد بظاہر میدان پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں کے درمیان لگتا دکھائی دیتا ہے۔جس میں تحریک انصاف ہی میدان کی سرخرو نظر آرہی ہے۔ایک سوال جس کا جواب ابھی تک نظر نہیں آرہا کہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے ضمنی الیکشن سے نکل جانے کے پس منظر کی کہانی ابھی تک منظر عام پر کیوں نہیں آسکی ؟. ایک وجہ تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی تر جیحات میں خان صاحب کی ضمانت،اور صدر مملکت کی تازہ ہدایات ہیں ویسے بھی دیکھا جائے تو اتحادی حکومت کی جماعتوں میں سے صرف پیپلز پارٹی۔ایم۔کیو ایم اور اے این پی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے مگر گو مگو کی صورتحال کے بعد مزکورہ تینوں جماعتیں بیک آوٹ کر گئیں۔ سیاسی جماعتوں کو میدان میں رہ کر مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان کی پہچان ان کے ووٹرز اور ان کے سپورٹرز ہی ہوتے ہیں اور یہی طاقت ان کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتی ہے مگر اس طرح میدان خالی چھوڑ دینا مخالفین کے تندوتیز سوالات کے آگے بے بس ہی کرنے کے مترادف ہے۔لاہور جس کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے یہاں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار ہی نظر آئے ہیں۔جس سے باقی جماعتوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اگر ہم پیپلز پارٹی کی بات کریں تولاہور کے تین حلقوں سے پیپلز پارٹی نے جن 3امیدواروں کو ضمنی الیکشن کے میدان میں لڑنے کے لیے کھڑا کیا ان کے ناموں کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کم از کم صوبائی دارلحکومت سے الیکشن لڑنے میں قطعی سنجیدہ نہیں۔این اے 126سے اورنگزیب برکی ،این اے 130سے احمد جواد فاروق رانا اور این اے 135سے امجد جٹ کو امیدوار نامزد کیا۔مزکورہ تینوں امیدوار وں کا سیاسی قد کاٹھ ایسا نہیں کہ وہ جیت سکتے اس پر طرفہ تماشا اورنگزیب برکی اور امجد جٹ کے کاغذات نامزدگی ہی مسترد ہو گئے جس سے ان امیدواروں کی انتخابی تیاری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ تیسرے امیدوار احمد جواد فاروق رانا جو وسطی پنجاب تنظیم کے فنانس سیکرٹری ہیں ان کی پارٹی کے اندر اور اپنے حلقے میں اتنی آو بھگت نہیں تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے بچ جانے والے تمام امیدواروں کو اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کی ہدایت کر دی ہے۔