بلوچستان میں ایک نیا انتشار
قومی افق … فیصل ادریس بٹ
٭٭٭٭٭
گزشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک ایسی خاتون کو گرفتار کیا گیا جو خودکش بمبار کے طور پر اپنے ہدف کی نشاندہی کی منتظر تھی جس کے بعد اس نے اپنے مقررہ ہدف پر پہنچ کر خودکش دھماکہ کرنا تھا۔ اس خاتون کے بارے میں خفیہ اداروں اور مختلف ذرائع سے مستند اطلاعات کے بعد جب اسے کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا تو اس سے خودکش حملے میں استعمال ہونے والی بارود سے بھری جیکٹ اور دوسرا سامان بھی برآمد ہوا جس پر دہشت گردوں نے سوشل میڈیا پر طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ اسے بلوچ خواتین کی تذلیل کہہ کر عوامی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ مکروہ مقاصد کے لئے بلوچ خواتین کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ نے چپ توڑ دی اور کہا کہ خواتین کی عزت اور ان کے احترام کو قبائل معاشروں میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، ان کا تماشہ نہیں بنایا جاتا۔ سچی بات بھی یہی ہے کہ اگر قتل ہو یا بڑا معاملہ اگر کوئی عورت مردوں کے میڑھ (جرگے ) میں آکر فریاد کرے تو بڑے بڑے سے بڑا معاملہ بھی سرد پڑ جاتا ہے۔ گرفتار ہونے والی یہ خاتون جس کا نام ماہل بلوچ بتایا جاتا ہے۔ یہ خاتون دو معصوم بچیوں کی ماں ہے سوال یہ ہے کہ اس کا ذہن گمراہ کرنے والے کون ہیں؟ قبائل کی روایات یہ ہیں کہ خواتین کو ایسے کاموں میں آگے نہیں کیا جاتا۔
اس کے برعکس دوسرا واقعہ جو نہایت افسوسناک ہے وہ ہماری انتظامیہ پولیس اور صوبائی حکومت کے لئے لمحۂ فکریہ ہے جس میں بلوچستان کے علاقہ بارکھان میں آباد بلوچ خان مری کی اہلیہ اور ان کی دو جوان بیٹیوں کا المناک قتل ہے جس نے پورے صوبے کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اس بارے میں اگر سخت ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے کیونکہ ان تینوں کا قتل بھی سوشل میڈیا پر زبردست توجہ حاصل کر رہا ہے۔ بقول شخصے کئی سالوں سے مقامی سردار کی نجی جیل میں قید اس خاتون نے ہاتھوں میں قرآن اُٹھا کر سب سے اپنی اور اپنے بیٹیوں کی جان بچانے کی درخواست کی تھی مگر افسوس صد افسوس کسی نے زندگی کی بھیک مانگنے والی کی فریاد نہیں سُنی اور ایک بااثر سردار کے سامنے جو صوبائی وزیر بھی ہے سب خاموش رہے جس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ ان تینوں کی نعشیں ایک کنویں سے برآمد ہوئیں اس کے بعد کس کو کیا ثبوت چاہئے؟؟ کیا یہ خون ناحق رائیگاں جائے گا؟ تینوں ماں بیٹیوں کی میتیں ایک عوامی احتجاج اور کوھلو میں نماز جنازہ کے بڑے اجتماع کے بعد ان کے آبائی علاقے بارکھان میں روانہ کردی گئی ہیں۔اب اگر ہزاروں افراد کا یہ مجمع صوبائی دارالحکومت میں آکر بیٹھ گیا تو پھر کیا ہوگا۔ حکومت بلوچستان اس مسئلے کو آسان نہ لے۔ ورثا کی طرف سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران پر نجی جیل میں قید رکھنے اور ویڈیو وائرل ہونے پرتینوں کو تشدد کر کے سر میں گولیاں مارکر قتل کرنے کے الزام کی تحقیقات غیر جانبدارانہ طور پر کرائی جائے اور مشتعل عوام کو بہرحال مطمئن کرنا حکومت بلوچستان کی ذمہ داری ہے ورنہ یہ معاملہ بلوچستان کے سلگتے ہوئے ماحول میں ایک نئے تنازع کو جنم دے گا جس کا فائدہ علیحدگی پسند تحریکیں اٹھائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی نئی قبائلی چپقلش کا آغاز بھی ہو سکتا ہے جس کا صوبہ متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو بلوچستان کے سلگتے مسائل پر وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کرکے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ دوسری جانب شہباز شریف نے نہ صرف مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں بلکہ عوامی دلچسپی کے منصوبوں کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا ہے اس وقت پنجاب میں وفاقی محکمہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے تحت اربوں روپے کے پراجیکٹس چل رہے ہیں ان پراجیکٹس میں شفاعیت برقرار رکھنے کے لیے وفاقی سیکرٹری افتخار شلوانی سے مشاورت کے بعد سینئر جائنٹ سیکرٹری اشفاق گھمن کو ڈائریکٹر جنرل پاک پی ڈبلیو ڈی کا چارج سونپ دیا گیا ہے۔ اشفاق گھمن دیانتدار آفیسر کی شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ محنتی اور انتہائی پروفیشنل شہرت کے حامل آفسر بھی ہیں جو کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرتے، ایسے آفسران کی ملکی مالیاتی اداروں میں سخت ضرورت ہے۔ پنجاب میں ثمن رائے سابق اور موجودہ ڈی جی پاپولیشن اس قدر ہارڈ ورکر ہیں کہ انھوں نے پاپولیشن جیسے ڈیڈ محکمے میں بھی اپنی پالیسیز کی وجہ سے جان ڈال دی ہے۔ ثمن رائے نے ثابت کیا ہے کہ ہر محکمے کو اپنی عوامی پالیسیز بنانے سے قبل محکمہ بہبود آبادی کے اعداد و شمار کی اشد ضرورت پڑے گی۔ ثمن رائے کے ٹیلنٹ کا فائدہ کم از کم پنجاب حکومت کو کسی محکمے کا سربراہ لگا کر اُٹھانا چاہیے اور اگر انکی قابلیت سے مزید گرویدہ ہونا چاہیں تو کسی ناکام سست خسارہ زدہ محکمے کا سیکرٹری لگا دیں اور پھر دیکھیں مردہ گھوڑے میں جان ڈالنا انکی قابلیت کی ضمانت ہے۔ نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی جیسے کام کر رہے ہیں ویسے پچھلے تقریباً پانچ سالوں سے کسی منتخب وزیراعلی نے نہیں کیا، وہ داد کے مستحق ہیں۔ ان کی محنت کو ڈی جی پی آر روبینہ زاہد لمحہ بہ لمحہ بارہ کروڑ عوام تک پہچانے میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ مگر افسوس انتھک ایماندار اور میرٹ پر پورا اُترنے والی روبینہ زاہد کے خلاف بھی سازشیوں، مافیاز نے جال بُننا شروع کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کی محسن نقوی اور انکے کلاس فیلو اور دیرینہ دوست سیکرٹری اطلاعات پنجاب علی نواز ملک دور اندیش بھی ہیں اور پی آر جیسی صبر آزما ورکنگ سے نبرد آزما بھی، اس لیے ڈی جی پی آر روبینہ زاہد جو انکا اپنا انتخاب بھی ہیں اُمید کی جاتی ہے کہ وزیراعلیٰ محسن نقوی اور علی نواز ملک اس محنتی خاتون افسر کو اپنے عہدے پر برقرار رکھیں گے ہی مستقل معمور رکھیں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جنگی بنیادوں پر ملکی معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی کرنے کے لیے انقلابی کفایت شعاری مہم کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ معیشت کی خوشحالی کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ میاں شہبازشریف نے کامیابی سے اگر یہ پل صراط پار کر لیا تو آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ کی کامیابی کو روکنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگا…!!!
………………………… تصاویر
وزیراعظم … شہبازشریف
میرعبدالقدوس بزنجو
محسن رضا نقوی
وفاقی سیکرٹری پاک پی ڈبلیو ڈی، افتخار شلوانی
ڈی جی پی ڈبلیو ڈی اشفاق گھمن
ڈی جی پاپولیشن پنجاب ثمن رائے
سیکرٹری انفارمیشن پنجاب علی نواز ملک
ڈی جی پی آر پنجاب روبینہ زاہد