کراچی ( اسٹاف رپورٹر )رئیسہ کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ بانو نے کہا کہ پاکستان حیاتیاتی تنوع(بائیوڈائیورسٹی) سے مالامال ملک ہے اور یہ پودوں اور جانوروں کی 1250 سے زائد اقسام کا گھر ہے،تاہم جنگلات کی کٹائی، مٹی کا کٹائو،سیم وتھورزدہ زمینوں میں اضافہ اور آبی ذخائر میں کمی پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کے لئے بڑے خطرات بن چکے ہیں۔حیاتیاتی تنوع انسانی زندگی سمیت زمین پر زندگی کی بنیاد فراہم کرتاہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ نباتیات جامعہ کراچی کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ سیمینار بعنوان’’بائیوڈائیورسٹی : تحفظ،مسائل اور چیلنجز‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ثمینہ قدوائی نے کہا کہ زمین 4.6 ملین سال سے زیادہ پرانی ہے اور زمین پر زندگی کے ثبوت تقریباً 3.7 ملین سال سے شروع ہوتے ہیں۔ ابتدائی زندگی کا آغاز آبی ماحول میں ہوا اور زندگی کے ابتدائی شواہد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے یلو اسٹون نیشنل پارک کے ہائیڈرو تھرمل تالابوں میں پائے گئے۔ صدرشعبہ نباتیات جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ عابد نے کہا کہ حیاتیاتی تنوع زمین پر کسی بھی شکل میں موجود زندگی ہے اور اس کو کھونے کا مطلب ہے کہ ہم زندگی کھورہے ہیں۔پودے زمین کے پھیپڑوں کی مانند ہیں اور پھیپھڑوں کے بغیر سانس لینا ممکن نہیں۔بدقسمتی سے شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی بے دریغ کٹائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے نہ صر ف یہ بلکہ شہرکراچی کے مضافاتی علاقوں میں پہاڑوں کی کٹائی کرکے سوسائٹیاں بنائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ماحولیات زوال پزیر اور حیاتیاتی تنوع کو بہت زیادہ نقصان ہورہاہے جس کا نتیجہ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی صورت میں نکلتاہے اور اس کا مشاہدہ گزشتہ دودہائیوں سے شہر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے لگایاجاسکتاہے۔ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(ڈبلیو ڈبلیو ایف ) کی نغمانہ ظفر نے کہاکہ بلیو اکانومی کے اصولوں پر عمل پیراہوکر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکتاہے، قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیکیورٹی کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو یورپی یونین کی مربوط میری ٹائم پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے۔ ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر بلقیس گل نے کہا کہ حیاتیاتی تنوع ہماری بقاء اور ترقی کے لئے ضروری ہے جس کی حفاظت کے لئے بروقت اقدامات ناگزیر ہیں۔حیاتیاتی تنوع میں کمی سے ماحولیاتی تبدیلیوں میںاضافہ ہورہاہے ۔شعبہ نباتیات کے زیر اہتمام اس اہم موضوع پر سیمینار کا انعقاد خوش آئند اور قت کی اہم ضرورت ہے۔ سیمینار آرگنائزرشعبہ نباتیات جامعہ کراچی کی ڈاکٹر صدف گل نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے کوشاں رہنے والے افراد کو درپیش چیلنجز پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے عوامی شعوربیدارکرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموںکو عملی اقدامات کے ذریعے ان چیلنجزسے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے ۔حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ایک پیچیدہ اور مسلسل جاری عمل ہے جس کے لئے توجہ اور کوششوں کی ضرورت ہے۔