سید سلمان گیلانی کی یاد رکھنے کی باتیں

تحریر: محمد فاروق عزمی
farooqazmi01@gmail.com
0321-4788517

کووڈ 19 نے جب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو نظام زندگی یکسر درہم برہم اور تبدیل ہو گیا۔ کروڑوں انسان مختلف طرح کی پابندیوں میں جکڑ دیے گئے۔ سماجی رابطے، میل ملاقاتیں، دفاتر، اسکول، کالجز سب کچھ بند ہو گیا۔ جلسے جلوس، سیمینارز، کانفرنسیں، مشاعرے اور دیگر اجتماعات بھی ان پابندیوںکی زد میں آ گئے۔ تقریبات پہ بندش لگا دی گئی حتیٰ کہ مساجد اور دیگر عبادت گاہوں سمیت حرم کعبہ اور مسجد نبوی میں داخلے اور عبادات بھی روک دی گئیں اور لوگ گھروں میںقید ہو کر رہ گئے۔ ایسے میں بہت سی ان ہونیاں ہوئیں۔ وہ مرد جو پانی کا گلاس بھی ٹھ کر نہیں پیتے تھے وہ کچن میں بیگم کے ساتھ برتن دھوتے نظر آئے۔ کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی ستھرائی میں بیگمات کا ہاتھ بٹانے لگے۔ کووڈ کے نقصانات اپنی جگہ، لیکن اس کے کچھ فائدے بھی ہوئے۔ جن میں سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ سید سلمان گیلانی صاحب جیسا بندہ آزاد جب گھر میں قید ہو کر رہ گیا تو کسی خیال نے یہ بات ان کے ذہن میں ڈال دی کہ انھیں اپنی زندگی کے حالات و واقعات کو قلمبند کرنا چاہیے اور یوں ایک عظیم شاعر کو کووڈ نے عظیم نثرنگار بنا کر اردو ادب کے دامن میں ایک بہت خوبصورت خود نوشت ڈال دی جس کا نام انہوں نے ”میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی“ رکھا ہے۔ اس بارے وہ کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
”یہ واقعات زیادہ تر میرے چشم دید ہیں یا مجھے میرے ہم عصر لیکن قابل اعتماد بزرگوں دوستوں نے سنائے ہیں۔ میرے والد مرحوم سید امین گیلانی کی انقلابی زندگی کے پون صدی پر مشتمل بیسیوں واقعات ان سے خود سنے ہیں۔ کچھ انہوں نے تحریر کر دیے، جن کو میں نے اپنی یادداشت پر بھروسہ کر کے لکھنے کی کوشش کی ہے، صاحبزادہ سید سلمان گیلانی، سید امین گیلانی کے صاحبزادے ہیں، سید امین گیلانی ختم نبوت کے شاعر کے طور پر جانے گئے۔ لہٰذا سلمان گیلانی بھی ان کی طرح ختم نبوت کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ آپ جب ترنم کے ساتھ اپنا کلام پڑھتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں۔ نظمیں، غزلیں اور نعت گوئی میں شہرت رکھتے ہیں، لیکن آپ کا ایک اور وصف مزاحیہ شاعری بھی ہے۔ شعر پڑھنے کا خاص انداز، مترنم لہجہ اور آواز کے زیر و بم سے محفل میں وہ رنگ جماتے ہیں کہ باقی سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ ہزاروں سامعین کو انہماک سے باندھ کر اس طرح بٹھا دیتے ہیں کہ ہر شخص کی توجہ آپ پر مرکوز ہوتی ہے۔ شعر کہنا اور شعر پڑھنا پسند ہے لیکن اب جو نثر کے میدان میں ترے ہیں تو سادگی روانی اور واقعات کی صحت و ترتیب سے انہوں نے اپنی خود نوشت کو اردو ادب کی بڑی سوانح عمریوںمیں درج کرا لیا ہے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں حمد و نعت کے دو مجموعے بالترتیب ”عبدہ رسولہ“ ”میں ہوں عندلیب بطحا“ غزلیات کا مجموعہ حریف سنگ، طنزیہ مزاحیہ شاعری کے چار مجموعے جن میں پنجابی مزاحیہ کلام ”تھوڑا جیہا ہنس لو“ پھر سلولی سلولی ”انھے وا“ وغیرہ شامل ہیں۔ بجھے چراغوں کی روشنی (غزلیات) اور اور نقوش حضوری (اسفار نامہ) زیر طبع ہیں۔ آپ نے حرمین شریفین کے کم و بیس پینتیس چھتیس سفر کیے۔ ان اسفار میں پیش آمدہ حالات و واقعات کو آپ ”شب جائے کہ من بودم“ کے عنوان سے اپنے کالموں میں تحریر کرتے رہے جسے نقوش حضوری کے نام سے اب کتابی شکل میں شائع کر رہے ہیں۔ باغ و بہار اور زندہ دل شخصیت ہیں۔ اپنی گفتگو میں ردو پنجابی اور انگریزی کے برجستہ استعمال سے محفل کو کشت زعفران بنانے کا ہنر جانتے ہیں اور لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا کارِ خیر ہمہ وقت کرتے رہتے ہیں۔
”میری باتیںہیں یاد رکھنے کی“ ایک لحاظ سے تاریخی دستاویز ہے اس میں ایسے محیر العقول اور دلچسپ واقعات شامل ہیں کہ آپ کتاب ہاتھ میں لیں گے تو اسے الگ رکھنا بھول جائیں گے۔ انداز بیان میں روانی، سلاست اور سادگی ہے۔ یہ سادگی آپ کی طبیعت کا بھی حصہ ہے۔ آپ سے مل کر، گفتگو کر کے، آپ کو پسند نہ کرنے کی کوئی وجہ باقی رہتی ہے نہ سمجھ آتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن سے آپ کا عقیدت کا تعلق ہے۔ مولانا کے والد مفتی محمود مرحوم کے بارے ساری زندگی ہم یہ سنتے رہے کہ انہوں نے کہا تھا ”شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے“ یہ اصل واقعہ کیا تھا اور اس الزام کی حقیقت کیا تھی اس بارے سید سلمان گیلانی کتاب کے صفحہ 265 پر لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں:
”مسلم لیگ کے ایک مرکزی رہنما سردار شوکت حیات نے پاکستان کے معروضی حالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے برسبیل تبصرہ کہہ دیا کہ ہم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی یہ وہ پاکستان نہیں، اس پاکستان کو تو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم نے پاکستان بنا کر گناہ کیا۔ اس پر ہنستے ہنستے از راہِ تفنن مفتی محمود نے سردار شوکت حیات کو جواب دیا کہ اگر یہ گناہ تھا تو شکر ہے ہم اس میں شریک نہیں تھے۔ اب دیکھیں ”گناہ“ مسلم لیگی نے کہا جو قائداعظم کا خاص قریبی ساتھی تھا مگر کھاتے میں مفتی صاحب کے ڈال دیا گیا۔“
صحافیوں نے یہ جملہ چک لیا۔ خبر بنا کر اخباروں میں چھپوا دیا۔ پھر کالم، اداریے تبصرے لکھے گئے۔ جن کی صدائے بازگشت آج بھی گاہے گاہے سنی جاتی ہے۔ صحافتی شرارتوں کا اسی طرح کا ایک واقعہ اگلے صفحے پر ایک بلوچ رہنما کے بارے میں درج ہے جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دعا کو دغا اور دوپٹہ کو پٹہ بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ وہ بلوچ لیڈر لندن گیا تو ایئرپورٹ پر ایک صحافی نے شرارتاً سوال کیا کہ آپ لندن سیر کے دوران ” اس بازار میں“ یعنی ریڈ لائٹ ایریا میںبھی جائیں گے۔ اس بلوچ قبائلی رہنما نے ہنستے ہوئے پوچھ لیا کہ ”یہاں بھی وہ بازار ہے؟“ اگلے روز لندن کے اخباروں میں شہ سرخی لگی کہ فلاں قبائلی لیڈر کا ہیتھ رو ایئرپورٹ پر ترتے ہی صحافیوں سے پہلا سوال ”کیا یہاں پر بھی وہ بازار ہے؟“
سید سلمان گیلانی چونکہ بنیادی طور پر شاعر ہیں اور یہی ان کی بڑی پہچان ہے۔ خود بھی اچھا شعر کہتے ہیں اور اچھے شعر کو صحیح تلفظ کے ساتھ کہ اس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک واضح ہو جائے پڑھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ اب اول تو اچھے شعر کا ذوق ہی نہیں رہا۔ واعظین کو وارث شاہ کی ہیر اور میاں محمد بخش مرحوم کے کچھ پنجابی شعروں کے علاوہ نہ اچھا شعر یاد ہوتا ہے نہ پڑھنا آتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے ایک معروف شعر کی تصحیح بھی کر دی جسے میں بھی آج تک غلط ہی لکھتا اور پڑھتا رہا۔ یہ شعر غلط العوام ہی نہیں غلط الخواص بھی ہو چکا۔ شعر یہ ہے:
چراغ و مسجد و محراب و منبر
ابو بکر و عمر و عثمان و حیدر
اس طرح تو یہ مطلب بنتا ہے کہ
چراغ سے مراد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ مسجد سے مراد حضرت عمرؓفاروق،محراب حضرت عثمانؓ غنی اور منبر حضرت علی المرتضیٰؓ۔ ظاہر ہے یہ معنی نکالنا ادبی اور تکنیکی دونوں طرح سے درست نہیں۔ اصل مصرعہ یوں ہے : چراغِ مسجد و محراب و منبر
یعنی مسجد و محراب و منبر کے چراغ یہ چار یار اور صحابہ رسولﷺ ہیں۔
سید سلمان گیلانی صاحب علم و عمل شخصیت ہیں۔ تصوف اور روحانیت سے گہرا لگاﺅ ہے۔ بزرگانِ دین سے عقیدت و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں اور اپنی خود نوشت میں سیکڑوں ایسے ماورائے عقل واقعات درج کیے ہیں جنہیں تصوف کی دنیا سے نابلد شخص حیران ہو کر سنتا اور پڑھتا ہے لیکن اللہ والوں کی ایک الگ دنیا آباد ہے جسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے قلب و نظر کی ”بینائی“ کا ہونا ضروری ہے۔ دل میں نورِ الٰہی کی شمع روشن ہو جائے تو انسان بصارت کی بجائے بصیرت کا اہل ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے اعمال میں پاکیزگی اور بالیدگی پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے مرشد کامل کا ہونا ضروری ہے۔ تصوف کی دنیا میں صاحب تصرف بزرگوں کی کیا کمی ہے۔ بصیرت مادی فاصلے مٹا کر آنکھ کو لامحدود تک دیکھنے کی اہل کر دیتی ہے۔ پھر یہ نگاہ جس شے پر پڑتی ہے اس کی اصل حقیقت اور پوشیدہ رازوں کو بے نقاب کرتی چلی جاتی ہے۔
العرض ”میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی“ انتہائی دلچسپ معلوماتی، علمی، ادبی، تاریخی اور ذاتی زندگی کی دستاویز ہے جس میں اہل ذوق کی تسکین طبع کے ڈھیروں سامان موجود ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پر ناشر اور مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی ہے۔ ہر بڑے بکسٹال میں دستیاب ہے نہ ملنے کی صورت میں قلم فاﺅنڈیشن کے آفس واقع یثرب کالونی بینک سٹاپ والٹن روڈ پر تشریف لائیں۔ خط لکھیں یا موبائل نمبر 0300-0515101 پر رابطے کا ذریعہ ای میل بھی ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن