سیاسی عدم استحکام کی تباہ کاری

Feb 23, 2024

حیدر عباس کلیال

فریب سود و زیاں

حیدر عباس کلیال
 haiderabbasraja556@gmail.com

 دور جدید میں تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی ایک دوسرے سے زنجیر کی مانند منسلک ہیں کسی بھی ایک مرکزی شعبہ زندگی کی بے یقینی کی کیفیت پورے نظام میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک دوسرے سے منسلک انتظامات، خدمات، سماجیات، معاشیات، عمرانیات، دینیات، قانون و انصاف،ایجادات (سائنس ٹیکنالوجی)سمیت تقریباً تمام شعبہ جات کا مرکز سیاسیات ہے کیونکہ مالیات اور تمام انتظامات اسی کے تحت آتے ہیں۔ جدید دور کی ریاستوں کے حالات کا جائزہ لیں تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہی ممالک ترقی، خوشحالی اور عوامی فلاح کی دوڑ میں سرفہرست نظر آتے ہیں جہاں سیاسی استحکام زیادہ ہے۔ ماہرین کی آرائ کی روشنی میں یہ بات اب بین الاقوامی سطح پر مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاچکی ہے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام اور قانون کی عملدار پہ منحصر ہے ان عناصر کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی استحکام ہے کیا۔ درحقیقت سیاسی استحکام ایسی خصوصیات کی حامل صورتحال ہے جس میں ایک تسلسل، ربط،بلا رکاوٹ اور ہموار طور پر چلنے والی حکومت یا سیاسی نظام کی عملداری ہو۔ جہاں غیر ضروری طور پر بڑے خلل اور تبدیلیاں رونما نہ ہوتی ہوں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو اپنے قیام سے ہی جن لا متناہی مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں سب سے کلیدی مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہی رہا ہے جو کبھی اداروں اور کبھی شخصیات کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا۔ ہر بار شدید معاشی، مالیاتی سماجی تباہی کے باوجود ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ذرا سا بھی سبق حاصل نہ کر سکے سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ الیکشن کے نتائج کے بعد بےدست و پا اشرافیہ انصرام حکومت کا پروانہ اٹھائے دربدر بھٹک رہی ہے لیکن کوئی خوشدلی سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہر سیاسی قوت اسے طوق سمجھ کر گلے میں ڈالنے سے ہچکچا رہی ہے۔ اب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اقتدار کا تاج کبھی منت سماجت اور کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے کمزور اور یہ بوجھ نہ اٹھا سکنے والے ان جسمانی و ذہنی عارضوں کے شکار لوگوں کے سر پر زبردستی رکھا جائے گا جن کے شاید اب آرام کرنے کے دن ہیں۔ بنیادی اصول تو یہی ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھا جائے لوگوں کے فیصلے کو عزت دی جائے بےجا مداخلت اور ریاستی طاقت کے استعمال کے تاثر کو زائل کیا جائے تاکہ لوگوں کے غم و غصہ کو ختم کیا جاسکے۔ جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا معاشی استحکام کا سوال ہی نہیں اور معاشی استحکام کے بغیر عوام کا اپنے امور زندگی میں مشغول ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ میں اس حق ہر گز نہیں آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے والوں کو قومی مفاد کے نام پہ معاف کر دیا جائے یا رعایت برتی جائے بلکہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسے طالع آزماو¿ں کو سخت اور مثالی سزائیں دی جائیں تاکہ باقی لوگ ان سے عبرت پکڑیں ایسے طالع آزمائ چاہے عدلیہ ، مقننہ، انتظامیہ یا انتظامیہ کے کسی ماتحت اداروں میں سے ہی کیوں نہ ہوں، سب کو نشان عبرت بنانا چاھیے لیکن سردست ملکی حالات کے پیش نظر ان معاملات سے صرف نظر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ضد اور انا کے اس گھٹن زدہ زہریلے ماحول سے نکل کر سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ادارے جذبات یا انا پرستی سے نہیں بلکہ اجتماعی شعور اور فکر سے مزین ہوں تو ہی فرائض منصبی سر انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ بہت ہو گئیں چپقلشیں، نفرتیں، تصادم، ضد و ہٹ دھرمی بہت ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جا چکی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بہت کرتب دکھائے جا چکے اب یہ ادراک کر لینا چاہیے کہ وقت نے تمام طاقتوں کو ایسی نہج پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں تمام سٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا تاکہ اجتماعی قومی شعور کے ذریعے درست سمت کا تعین کر کے ناصرف نئے سرے سے سفر کا آغاز کیا جاسکے بلکہ نئے عمرانی معاہدے social contract جس کی بازگشت دہائیوں سے سنائی دے رہی ہے کے خط بھی کھینچے جا سکیں۔ اس تمام تصوراتی خاکے کی جانب پہلا قدم اپنے اپنے مینڈیٹ میں رہ دوسرے اشخاص اور اداروں کو ان کے حصے کا احترام دینا ہے یہ واحد طریقہ ہے جس سے اعتماد کی فضائ بحال ہو سکتی ہے ورنہ دلدل میں دھنستے چلے جائیں ایک دن ہوگا کہ خدانخواسطہ ہمارا نام و نشان مٹ جائے گا۔

مزیدخبریں