سانحہ بابری مسجد ۔ تاریخی پس منظر


سیّد ارتقاءاحمد زیدی irtiqa.z@gmail.com 
ارتقاءنامہ
    اگرچہ بابری مسجد ہندوستان کے بادشاہ ظہیر الدین بابر سے منسوب ہے۔لیکن اس بادشاہ کی لکھی ہوئی اپنی سوانح حیات بابر نامہ میں اس کا کہیں ذکر موجود نہیں ہے۔ لیکن زیادہ تر شواہد بھی ملتے ہیں کہ یہ مسجد ایک نامور ماہر تعمیر، میر باقی نے بابر کے حکم پر 1527عیسوی میں اترپردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی۔یہ مسجد اسلامی مغل فن ِ تعمیر کے لحاظ سے ایک شاہکار تھی۔
    کچھ ہندو تنظیموں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسجد رام کی جائے پیدائش پر بنائی گئی ہے۔ 1853ءمیں پہلی مرتبہ اس مسجدپر شہر میں فسادات ہوئے۔ انگریزوں نے ہندوﺅں کو خوش کرنے کے لئے مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔1949ء میں ہندوﺅں نے مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی۔ مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا اور ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ حکومت نے مسجد کو متنازع قرار دے کر بند کردیا۔ 1984ءمیں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ’رام‘ کی جائے پیدائش کو مسلمانوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔
    1986ءمیں حکومت نے ہندوﺅں کو متنازع جگہ پر پوجا کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور بابر مسجد ایکشن کمیٹی قائم کر دی۔ 1989ءمیں وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی اور 1990ءمیں وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ 1991ءمیں جونہی ریاست اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت قائم ہویئ، ہندوﺅں نے مسجد کو شہیدکر دیا۔ وسیع پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جس میں تین ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ 2001ءمیں مسجد کے انہدام کے 9 سال مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد نے رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا۔
    ہندو مسلم کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا اور گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے، جس میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اکتوبر 2010ءمیں الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی دو تہائی سے زیادہ زمین ہندوﺅں کے دو فریقوں کو دے دی اور ایک تہائی حصہ پر مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ہندو اس فیصلے سے خوش نہیں ہوئے اور سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ 10نومبر 2019ءکو سپریم کورٹ نے بڑی ڈھٹائی سے ہندو عقیدے کی بنیاد پر بابری مسجد کی زمین ہندوﺅں کے حوالے کر دی اور وہاں پر بڑی تیزی سے رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی۔
    وزیر اعظم نریندر مودی نے 20 جنوری 2024ءکو ایک بہت بڑی تقریب میں رام مندر کا افتتاح کیا۔ یہ افتتاح اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا جس کی ہندوستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پوری دنیا سے ہندوستانی مشہور کھلاڑیوں ، فنکاروں، اداکاروں، سیاستدانوں اور دیگر مشہور شخصیات کو مدعو کیا گیا۔وزیر اعظم مودی نے زہر میں بجھی ہوئی تقریر میں ہندوستان میں موجود مسلمانوں کو واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے جہاں صرف ہندوﺅں کو رہنے کا حق ہے۔ مودی کی تقریر کو پورے ہندوستان نے بہت سراہا اور کہیں سے بھی یہ آواز نہیں اُٹھی کہ ہندوستان جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ کس طرح ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔دُنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کیونکہ ہر ملک کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ عرب دُنیا کے مسلمان حکمران بھی مودی کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ متحدہ امارات نے نہ صرف ہندوﺅں کو مندر کی تعمیر کی سہولت فراہم کی بلکہ اس کے افتتاح کے لئے مودی کو مدعو کیا۔
    رام مندر کے افتتاح کے موقع پر کی گئی مودی کی تقریر سے نسل پرست ہندوﺅں کو اپنی من مانی کرنے کا حوصلہ ملا۔ اور انہوں نے کھل کھلا مسلمانوں کی مسجدوں کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
    31جنوری 2024ءکو صبح فجر کے وقت دہلی میں واقع مسجد اخونجی۔مدرسہ بحرالعلوم اور اس سے ملحقہ مسلمانوں کے قبرستان کو بلڈوزوں کے ذریعہ سے چند گھنٹوں میں مسمار کر دیا۔ یہ کاروا ئی دہلی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی Delhi Development Authority نے بالکل اچانک کی۔ اس وقت مدرسہ میں مو جود طالب علم فجر کی نماز کے لئے وضو کر ر ہے تھے۔پولیس کی بھاری نفری نے مسلمانوں کو احتجاج کرنے کا موقع بھی نہیں دیا اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کر لیں۔
    پچھلے ہفتہ قطب الدین ابیک کے دو رکی ایک تاریخی مسجد مسمار کر دی گئی اور احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو زد کوب کیا گیا۔ یہ تو وہ مساجد ہیں جن کے مسمار کرنے کی خبر یں سوشل میڈیا کے ذریعے مل جاتی ہیں۔ ہندوستان کے طول و عرض میں چھوٹی چھوٹی بے شمار مساجد کو مسمار کرکے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے۔ ان سب مظالم کے باوجود 50 سے زیادہ اسلامی ممالک میں آباد دو ارب سے زیادہ مسلمان خاموش ہیں اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی طرف سے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا جا رہا۔ اس لئے ہندوستان کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...