واہ رے مداری تیرا تماشہ 


نوید مغل
مداری سڑک کے کنارے ر±ک کر ایک ہاتھ سے ڈ±گڈگی بجانے لگتا اور دوسرے ہاتھ سے بانسری ہونٹوں پہ جما کر پھونک مارنے لگتا۔ بندر ا±لٹی سیدھی قلابازیاں لگا کر ناچنا شروع کر دیتا۔ تماش بین دائرے میں جمع ہونے لگتے۔ بندر ٹین کے ڈِبے میں موجود چاقو ہاتھ میں لے کر منہ سے آوازیں نکالتا ہوا تماشائیوں کو للکارتا۔ تماشائی پیچھے کو کھسک جاتے اور ہر طرف سے قہقہے سنائی دیتے۔ جب بہت لوگوں کی معقول تعداد جمع ہو جاتی تو مداری بندر کو باندھ دیتا تھا۔ اب بندر آرام سے بیٹھ کر اپنا جسم کھجاتا رہتا۔ مداری گدڑی سے لکڑی کا انسانی مجّسمہ نکالتا اور اسے مجمعے کے درمیان رکھ کر کہتا ” اس بھرے مجمع میں ہے کوئی جوان کا بچہ جو آئے اور اس کو ا±ٹھا کر دِکھائے؟ “
بیٹھے، کھڑے مجمعے میں سے کسی کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آگے بڑھ کرلکڑی کا مجّسمہ ا±ٹھا لے۔ دفعتاً جمہورا ہجوم میں سے باہر نکلتا اور وہ لکڑی کا مجّسمہ اپنے ہاتھ میں ا±ٹھا لیتا۔ مداری بانسری ہونٹوں سے چپکا کر ڈ±گڈگی بجاتے ہوئے ہاتھ کو گول دائرے میں گھماتا تو یہ لکڑی کا مجسمہ جمہورے کے ہاتھ سے چپک جاتا۔ جمہورا اس مجسمے کو اپنے ہاتھ سے پرے جھٹکنے کی کوشش کرتا۔ وہ اس کو جھٹک جھٹک کر نیچے پھینکتا مگر یہ مجسمہ اس کے ہاتھ سے الگ نہ ہوتا۔ مجمع قہقہے لگانے لگتا اور پھرمداری بانسری ہونٹوں سے چپکا کر ڈ±گڈگی بجاتے ہوئے ہاتھ کو گول دائرے میں ا±لٹا گھماتا تو یہ لکڑی کا مجسمہ جمہورے کے ہاتھ سے جدا ہو کر نیچے گر جاتا۔          
اگر ماضی کے بندر تماشوں کا مقابلہ آج کے تماشے سے کیا جائے تو ہر چیز کی طرح بندر تماشہ بھی بہت بدل گیا ہے،بندر کو نچانے والے نے بھی کافی ترقی کرلی ہے پہلے صرف بندر ہوتا تھا اور ایک ڈگڈی لیکن اب تو بندر کے ساتھ ساتھ بکری، کتا اور سانپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ مداری یہ بات جان گیا ہے کہ عوام بندر سے اکتا جاتے ہیں تو اسلئے وہ کبھی بکری سے دو چار کرتب کرواتا ہے اور کبھی سانپ چھوڑ دیتا ہے اور اس کے بعد پھر سے بندر کی باری کیوں کہ عوام کے آگے ڈبہ لے کر جانے والا تو بندر ہی ہوتا ہے۔         
بچپن میں ہمیں مداری کے جادوئی کھیل دیکھنے کا جنون ایک حد سے بھی زیادہ ہوتا تھا اور سکول سے واپسی آتے راستے میں مداریوں کے مخصوص ”اڈوں“ پر گھنٹوں پرفریب لچھے دار گفتگو کے جال میں آکر دوستوں سمیت اپنا جیب خرچ مداریوں کی ”چرب زبانی “ پر قربان کرنا اور سر پر سنہری تاج پہنے چھوٹی سے پٹاری میں بند سانپوں کے ” قائد“ گرو سانپ کو مداری کے پاس موجود سانپوں کو سلامی دینے کا اعلان اور بعد ازاں بادشاہ سانپ کو دکھانے کی بجائے تماشائیوں کو اِدھر ا±دھر کی دلفریب باتوں سے لبھا کر تماشائیوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا اور پھر آخر میں دم کئے بواسیر کے چھلے اور مردانہ کمزوری کی خود ساختہ ادویات کے نادر نسخے فروخت کرکے راہ لینے تک ہم بھی بت بنے مداری کے لگائے گئے مخصوص دائرے میں کھڑے رہتے۔
شہر کے سارے ہی مداری تقریباً ایک ہی طرح سے کھیل شروع کرتے تھے۔ سب کے پاس ایک جھولی ہوا کرتی تھی، جسے وہ بھیڑ کے درمیان گھوم گھوم کر کندھے سے اتارکر ایسے رکھتے تھے جیسے بڑا اہم کام کر رہے ہوں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ سب کی نظر ان پر پڑ جائے اور پھر ایک ادا سے اس جھولی میں سے ڈگڈگی نکالتے اور بجا بجا کر لوگوں کو گولا بنانے پر آمادہ کرتے تھے۔ اس گولے میں بچوں کو آگے آنے کی جگہ ملتی تھی۔
مداری ڈگڈگی بجاتا، پہلے اس کی آواز کم ہوتی پھر تیز ہوتی چلی جاتی اور پھر ایسی ہو جاتی جیسے مداری ڈگڈگی کے ذریعہ الگ الگ لوگوں سے باتیں کر رہا ہو۔ پھر مداری جھٹ سے ایک لمبی تقریر کرتا جو گانے اور تقریر کا مجموعہ ہوتی تھی۔ بات مہربان، قدردان سے شروع ہوتی تھی اور نہ جانے کہاں سے اس میں سانپ کا جوڑا، ناگن کا فن، بکولی کے پھول، طوطے کی جان، رانی کے جھومر، آسمان کی سیر، جگنو کی پونچھ، شیر کے پھیپھڑے اور گدھی کا دودھ آ جاتا تھا۔
مداری کی آواز کبھی اونچی اور کبھی دھیمی، کبھی ہنسانے والی اور کبھی ڈرانے والی ہوجاتی اور بیچ بیچ میں وہ شعر اور دوہے بھی پڑھتا جاتا۔ وہ ہوا میں بار بار ہاتھ ہلاتا، ادھر سے ادھر، ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے ہاتھ ہی باتیں کر رہے ہوں، آنکھیں بھی خوب مٹکاتا، بھویں اوپر نیچے ہوتی رہتیں، ایک ادا سے بیچ بیچ میں پانی پیتا، ہر بار پانی پینے کے بعد اس کی آواز دھیمی ہو جاتی۔ کبھی ہاتھ ایسے پھیلاتا جیسے اڑ جائے گا اور کبھی انگلی سے ہوا میں سراخ کر دیتا۔ ہم بچے کھیل کا انتظار کرتے ہوئے اس کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتے۔ کھیل شروع ہوتا تو مداری کبھی لوہے کا گولا کھا لیتا اور کبھی آگ میں نہاتا، کبھی کان سے دھواں نکالتا تو کبھی سر سے پانی کی دھار۔ بار بار چلّاتا کہ پیر کی مٹی مت چھوڑنا ورنہ خون کی الٹی کروگے، کبھی ہاتھوں پر چل کر دکھاتا تو کبھی ٹوپی سے کبوتر نکال کر کہتا بچوں ڈیڑھ ہاتھ کی تالی بجاﺅ۔ یہ ڈیڑھ ہاتھ کی تالی کیا ہوتی ہے ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آیا، پھر بھی ہم تالی ضرور بجا دیتے۔
لیکن ایسا بھی ہوتا کہ مداری کی تمام کوششوں کے باوجود بھیڑ منتشر ہوجاتی۔ پہلے وہ لوگ جو پیچھے کی قطاروں میں اچک اچک کر تماشہ دیکھ رہے لوگ جانا شروع کردیتے اور پھر آگے کی قطار کے لوگ ادھر ادھر ہونے لگتے۔ ایسے میں مداری اور ڈگڈگی کی آواز چیخوں میں بدل جاتی۔ جیسے چیخ چیخ کر لوگوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو اور یہ کہہ رہی ہوکہ کچھ تو دیتے جاو?۔ جب کھیل بد مزہ ہوتا تو ہم دوستوں سے کہتےکہ آج مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا۔
8 فروری کے بعد سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے والے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے میں مصروف ملک وقوم کا درد رکھنے والوں کی چرب زبانی نے مجھے مداری کی یاد دلا دی۔سیاسی مداری نے ویسے ہی ہاتھ چلائے، آنکھیں نچائیں، بھویں اوپر نیچے کیں، کبھی چیخا، کبھی آواز دھیمے کی، کبھی ہاتھ اڑنے کی کیفیت میں پھیلائے تو کبھی انگلی سے ہوا میں سراخ کیا۔ بیچ بیچ میں ادا سے پانی پیا۔ شعر اور دوہے کا تڑکا بھی لگایا۔ تماشہ پورا تھا لیکن مداری کی ڈگڈگی میں دم نہیں تھا۔

ای پیپر دی نیشن