سفید بالوں اور جھریوں والی جلد پر لگانے کے لئے مجھے تیل دے جانے والی اپنی بیٹی کو میں دور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جوان تو اب وہ بھی نہیں ر ہی تھی۔۔۔ میں نے اپنی دھندلی ہوتی ہوئی آنکھوں سے دھیرے دھیرے اس کو پچاس کے پار جاتے دیکھا تھا ۔ گویا میں نے لمحہ لمحہ اس میں اپنا ماضی دیکھا تھا ۔ شائد مجھے آدھا ادھورا آج بھی یاد ہے کہ اس نے کب بالوں میں کلر لگانا شروع کیا تھا تاکہ مانگ کے نزدیک کے بالوں کی سرمئی رنگت چھپ سکے ۔ شوہر بچوں کے لئے روٹیاں ڈ التے ڈالتے اس کی آنکھوں کی ساخت کو بتدریج تبدیل ہوتے بھی میں نے دیکھا تھا ۔۔ اب توشادی بیاہ کے موقع پر اس کے پاس سے گزرتے لڑکے لڑکیاں بڑے رسان سے اسے۔ آنٹی رستہ دیجئے گا ۔کہہ کر گزر جایا کرتے تھے وہ بھی اٹھتے بیٹھتے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے لگی تھی ۔ مرد ہمیشہ جوان رہتا ہے اور عورت ؟ عورت کے بارے میں ایسی کہاوت نہیںسنی کیونکہ عورت عمر سے پہلے ہی بوڑھی ہو جاتی ہے ۔
میری کنگھی چوٹی کرنے کو وہ ایک شیشہ لے آئی اور مییرے پیچھے بیٹھ گئی ۔۔۔ میں نے شیشے میں اپنا اور اس کا چہرہ دیکھا ۔۔ اور ایک پل کو لگا کہ زندگی کے مختلف مراحل پر موجود یہ دو چہرے اصل میں ایک ہی ہیں ۔۔ جو نجانے کیسے ایک دوسرے سے اکثر ہمکلام ہو جاتے ہیں ۔