ذکرکے پودے کی نشودنما کے لیے فکر کے پانی کی ضرورت ہے اور فکر تقوی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو وہ اپنے نیک و بد اعمال کا متعصب بھی ہو جائے گا۔ کبھی امید اور کبھی خوف لاحق ہوگا۔ اس طرح وہ عجیب عجیب حالتوں سے گزرے گا۔ جب ظاہر کی آنکھ سے درخت کو دیکھے گا تو پتے کی ساخت درخت کی ساخت اور اس کے نظام زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اور دیکھے گا کہ اللہ تعالی کی یہ کن فیکون تخلیق بھی اپنے اندر ہر لحاظ سے مکمل حکمت رکھتی ہے ۔
ان چیزوں کے مطالعے کے لیے باقاعدہ ایک پولیٹیکل سائنس مرتب کی گئی ہے۔ لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر کوئی بھی حرفِ آخر نہیں۔ اگر پتے کی نزاکت پر غور کیا جائے اس کی ساخت ہی کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ایک پتا دوسرے پتے سے نہیں ملتا۔ درخت کتنا بڑا ہوتا ہے مگر اسے بھی سہارا جڑ کا ہے۔ جو بدشکل اور خاک آلود ہے۔ اس کے ذریعے سے کس طرح درخت کو زندگی کا سامان ملتا ہے۔ یہ قابل غور حکمت ہے جڑ اپنا سب کچھ ایثار کرتی ہے تب شجر کو یہ مقام ملتا ہے۔ پھر جب نسیم کے جھونکے آتے ہیں تو ٹہنیاں کیسے رقص کرتی ہیں اور پتے کس طرح ہلتے ہیں اور ان سے کیسی صدا پیدا ہوتی ہے اوراس صدا میں بھی اللہ والے صاف اللہ اللہ کی صدا سنتے ہیں یا کوئی اور تسبیح سنتے ہیں اور انسان جوں جوں اور پورے انہماک سے اس آواز کو سنتا ہے تو اس آواز میں آہستہ آہستہ غرق جاتا ہے اور کھو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شے جو وجود میں آئی اللہ تعالی کے ذکر یا تسبیح میں مشغول ہے ۔
وہ ذکر جو فکر سے خالی ہو سمجھو کہ ذاکر نہ صرف اپنا وقت ضائع کر رہا ہے بلکہ اپنے قلب و روح کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ وہ ذکر جو آپ کو اللہ سے واصل نہ کرے ،وہ زہر ہے، جب ذکر میں عاجزی پیدا ہوتی ہے چاہے اپنے گناہوں کا خیال آئے اور ندامت کے آنسو آئیں اور جب ندامت قبول ہو اور رب کریم کی طرف سے قلب کو رقعت درد وگدازملنے لگے اور قلب کی آنکھوں کے حلقوں میں گرم گرم آنسو بھیجنے لگے اور یہ ندامت توبہ کے آنسو کچھ عرصہ تک مژگاں پر رقص کرتے رہے اور پھر چھلک کر گالوں پر آ کر گریں تو اس سارے عمل کے بعد انسان اپنے اندر ایک عجیب نورانی کیفیت محسوس کرے گا، اورکہے گا۔
مژگاں پہ ٹمٹاتے ستاروں نے کر دیا
ماتم کدے میں میرے چراغاں کبھی کبھی
فکر کے لیے قرآن کا مطالعہ بہترین ہے یہ ایمان کے موتیوں کا ایسا خزانہ ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ عمر ختم ہو جائے گی مگر یہ خزانہ اسی طرح بھرے گا، حضرت عمر فاروق نے سورہ بقرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے 12 برس پڑھی اور اس کے بعد اس نعمت کے حصول کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کر کے دعوت کی۔ شکر نعمتوں کا ہے اور جب اس کی نعمتوں پر فکر کر کے سمجھے گا تو عش عش کر اٹھے گا اور اس دم باری تعالی کے احسانوں کا شکر ادا کرے گا۔ شکر اور صبر لازم و ملزوم ہیں جس کو تکلیف میں صبر کرنا آگیا اور اس نے دل و روح کی راحت کا سامان اکٹھا کیا اللہ تعالی فرماتا ہے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر کا بڑا درجہ ہے یہ ذاکر اور راہ سلوک کے مسافر کی تلوار اور ڈھال ہے ایسے ایسے مصائب اس راہ میں آتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے صبر کی توفیق میسر نہ ہو تو انسان کفر کے دروازے پہ پہنچ جاتا ہے۔ فکر جز وقتی مشق نہیں ہے یہ ہمہ وقتی کیفیت ہے جب تک دل بیدار ہے وہ جس چیز کا مشاہدہ کرے گا اسے رب کریم کی قدرت کا نمونہ یا شاہکار سمجھے گا اور اس کو خوب سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اتنی کوشش کہ قلب ذکر میں آ جائے اور پن چکی کی طرح ذکر کرنے لگے اور روح اس کے نشے میں مست الست ہو جائے، جب یہ صورت قالب میں پیدا ہو جائے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالی نے اسے نوری عقل عطا فرما دی ہے اور اس کی عقل سے فتور دور ہو گیا ہے۔ اب یہ عقل پاک و صاف اور نوری ہو کر اس کے لیے مشعل راہ بن گئی ہے۔ یہی عقل جو اس کو گمراہی کے اندھیرے میں دھکیلتی تھی اب اس میں سے شر دور ہو گیا اب خیر ہی خیر ہے انشاءاللہ۔
جب طالب اپنے اعمال کا انصاف سے محاسبہ کرتا ہے تب فکر تیز ہوتی ہے اور طالب ایک عجیب لذت محسوس کرتا ہے، اعمال زشت پر ندامت صدق کو خلوص سے ہو تو وہ اپنے اندر ایک عجیب رہنمائی اور تڑپ پاتا ہے ایسی صورت میں جی چاہتا ہے کہ آنسوو¿ں کی بارش جاری رہے۔ طالب کو چاہیے کہ وہ اسی حالت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مستغرق رہنے کی کوشش کرے۔