ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ


ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابات 2024ءکے نتائج پر شکوک وشہبات کا اظہار 8فروری کی رات سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس مسئلے پر طوفان اس وقت برپا ہواجب پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر ماضی کی حکومت میں شریک اقتدار رہنے والے مولانا فضل الرحمن نے 2024ءکے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں تنقید کا نشانہ بنایا اور انتخابات میں صوبہ کے پی کے میں اپنی ناکامی کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دی۔ پی ٹی آئی نے مولانا کے موقف کواپنے لیے ''غیبی مدد''سمجھا۔ یوں ا±ن کے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج میں مزید شدت آگئی۔ مولانا نے اپنے انٹرویو میں حیران کن طور پر9 مئی کو پیش آنے والے سانحہ پر بھی یہاں تک کہہ دیا کہ حالیہ انتخابات میں عوام نے 9مئی کے بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔ حالانکہ قومی انتخابات 9مئی کا ریفرنڈم نہیں تھے اور اس میں ملوث عناصر آج بھی وہیں کھڑے ہیں اور اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ لیکن مولانا اس حقیقت کا ادراک رکھنے کے باوجود اس کا اظہار کرنے کو تیار نہیں کہ وہ انتخابی کمپین میں عوام سے پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ انتخابات سے قبل اپنے ساتھیوں کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے یعنی پاکستان کی صدارت کی خواہش ظاہر کرچکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ قومی حلقوں میں کم از کم 10اور کے پی کے میں 20سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن جیسے ہی حکومت کی تشکیل کے لیے ن لیگ اور پی پی میں بات چلی اور بلاول نے صدر پاکستان کیلئے اپنے والد آصف علی زرداری کا نام تجویز کیا تو دوسرے ہی روز مولانا نے انتخابی نتائج پر سوالات اٹھاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے انتخابات میں کردار پر بحث چھیڑ دی۔
اس کے بعد ملک میں سوشل میڈیا اور ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف انتخابات کے حوالے سے تیار کیے گئے منفی بیانیہ کی ترویج شروع کردی اور تاثر پھیلایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ بالخصوص اس کی قیادت ملک میں زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے بالکل نابلد ہے اور اگر اس کا ادراک رکھتی بھی ہے تو بھی وہ عوام کے جذبات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ فروغ پانے والا دوسرا بیانیہ انتخابی نتائج کو لے کر پروپیگنڈے کا پھیلاو¿ ہے کہ پاکستان کے عوام نے ووٹ کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہارکردیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہماری اسٹیبلشمنٹ روز اول سے مخصوص نظریات کی حامل قوم پر ست جماعتوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے اوربعض عناصر اپنے کیمونسٹ نظریات کے پاکستان میں فروغ کی راہ میں اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے کر طرح طرح کے مفروضوں پر مبنی قصوں اور جعلی واقعات کی بنیاد پر عوام کے ذہنوں میں تحفظات اور شکوک کے بیج بونے کی کوششوں میں رہے۔انہیں سویت یونین، بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی معاونت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر نہ تو لسانیت اور صوبائیت کی تفریق تھی نہ ہی فرقہ واریت کی جگہ۔ بلکہ ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے اور آج بھی پاکستانیت ہی ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پہچان ہے۔ اس کے باوجود ہر گزرتے وقت کے ساتھ قوم پرست عناصر کسی نہ کسی بہانے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے روایتی بغض کے اظہار کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خاص کر انتخابات کے موقع پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ملک کے مختلف صوبوں میں عوام سے پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہنے والوں کو ساتھ ملا کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نئے سرے سے مہم کا آغاز کریں۔ ایسی ہی صورت حال 8فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کو لے کر برپا کردی گئی۔ جس میں اسٹیبلشمنٹ کو بھر پور طریقے پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے ہدف بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
مندرجہ بالا پراپیگنڈے کی روشنی میں اگر انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو انتخابات میں ووٹر ز کاٹرن آو¿ٹ 48فیصد رہا جبکہ 52فیصد نے اپنا حق رائے وہی استعمال نہیں کیا۔ان 48فیصد ووٹرز میں 30فیصد سے 35فیصد نے پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ یوں پی ٹی آئی کے 30 سے 35 فیصد ووٹ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سمجھ لیئے گئے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ اس حمایت کے پیچھے بہت سے علاقائی روایتی عناصر جس میں برادریاں ، گروہ بندی، ذاتی پسند اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر دھڑے بندیاں ساتھ ہی کارفرماتھیں۔ تو پھر ووٹ ڈالنے والے 30سے 35فیصد افراد کیونکر اسٹیبلشمنٹ کے مخالف قراردیئے جاسکتے ہیں۔ پھر بھی اگر اس مفروضے کو جو پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کی بنیاد ہے تو ووٹ ڈالنے سے اجتناب برتنے اور پی ٹی آئی کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں کو کس صف میں کھڑا کیاجائے گا ؟اگر پھیلائے جانے والے مفروضے کو سچ مانتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو جانبدار قرار دے بھی دیاجائے تو پھر مبینہ طور پر اسٹیبشلمنٹ کی طرف سے کھڑی کی جانے والی جماعتوں کے سربراہوں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو اپنے آبائی علاقوں کے من پسند حلقوں میں عبرت ناک شکست کا کیوں سامنا کرنا پڑا اور مولانا فضل الرحمان کو کم سیٹیں کیوں ملیں۔
 اسی طرح ن لیگ کے بہت سے نامور امیدواروں کو شکست ہوئی ہے تو کیا ان سب کو اسٹیبلشمنٹ نے شکست دلوائی ؟ اسٹیبلشمنٹ کا قصور یہ بنتا ہے کہ 8فروری سے قبل انتخابات کوسوشل میڈیا پر متنازع بنانے کیلئے جن کوششوں کا آغاز ہوا، ہماری اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے بعد اس پروپیگنڈے کے منفی اثرات کابروقت ادراک کرنے میں ناکام رہی اور سنجیدگی سے اس کے تدارک کی طرف توجہ نہیں دے سکی۔ انتخابات سے قبل شرو ع کیا گیا یہی پراپیگنڈہ بعد ازاں فارم 45اور 47کی شکل میں پورے انتخابات کو مشکوک بنانے کا سبب بنا۔ یوں نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی بلکہ ملک کے اندر ایک ایسی بحث کو چھیڑ دیا گیا جو پاکستان کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن