عہدکے آشوب کی”مکمل نامکمل“ عکس بندی

Feb 23, 2024

ڈاکٹر افتخار شفیع


میر کا ایک عجیب سا شعر ہے:
یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر
اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے
پلیتھن اس تھوڑے سے خشک آٹے کوکہتے ہیں جو خواتین روٹیاں بناتے ہوئے گیلے آٹے کے ساتھ لگاتی ہیں تاکہ انکے ہاتھ چپکنے سے بچ جائیں۔ان دنوں یہ شعر ہر عام آدمی کے حسب حال ہے۔اس بے چارے کا تو اب وعدہ¿ فردا سے بھی اعتقاد اٹھ گیا ہے۔رہاغیر تو اس کی ٹکی تو خوب لگ رہی ہے،بلکہ نوبہ نو پکوان اسکے دستر خوان کی زینت ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ سماجی اورمعاشی ناآسودگی کے بہت سے محرکات ہیں۔ امیراور غریب طبقہ ہر معاشرے میں موجود ہوتاہے لیکن یہاں بات دلوں سے خوف ِ خدا کے اٹھ جانے کی ہورہی ہے۔ جب اشرافیہ بے رحم ہوجاتی ہے تو عام آدمی کے دل میں اس کے لیے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒنے ”حجة اللہ البالغہ“ میں معاشرے کی بدانتظامی اور عدم تحفظ کا بڑا سبب معاشی بدحالی اور طبقاتی تقسیم کوقرار دیا ہے۔ اگرریاست کا ہر عمل اخلاص کی بنیادوں پرقائم ہوتو عوام الناس ہرطرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ہماری ہاں چند سال پہلے ”ریاستِ مدینہ “کا نعرہ لگایا گیا لیکن آنکھیں اس کی عملی تعبیر دیکھنے کو ترستی رہیں۔مدینے کی ریاست میں اگرعام آدمی نے بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہو توحکمران کے پیٹ پر دوپتھر بندھے ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میںناآسودگی کا پہلو اتنا ہمہ گیر ہے کہ کسی بھی زمانے میں اس کی بے برکتی اور بدتوفیقی موجودرہتی ہے۔ ہماری موجودہ بدحالی الم ناک نہیں بلکہ اس صورت حال میں مقتدر طبقے کی بے رحمی ،ابن الوقتی اور بددیانتی قابل مذمت ہے۔نوجوان نسل کے دل میں پیدا ہونے والی نفرت کوختم ہونے میں عرصہ لگے گا۔ حکومتی سطح پرسخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر شاعروں، ادیبوں، مصوروں اورفنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ عوامی شعور میں اضافے کے لیے تگ ودو کریں۔ہمیں قومی سطح پر سلطان راہی کی بڑھک سے زیادہ وحید مراد کی سرگوشی کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ کھیل کے میدانوں سے اقتدار کے ایوانوں تک ہرجگہ” بڑھکیں مارنا“ ہی سکہ ¿ رائج الوقت ہے۔ ہمارے شاعروںنے ہردور میں عوامی مزاج کی ترجمانی کی ہے۔پروفیسرانورجمال کا شعری کلیات ”مکمل نامکمل“ حال ہی شائع ہوا ہے ۔اس میںروح عصرکی ترجمانی ملتی ہے۔انور جمال شہر اولیاءملتان میں مقیم ہیں لیکن ان کی شاعری کی گونج ملکی سطح پرسنائی دیتی ہے۔کسی بھی عہدکی شاعری کا اس عہد کے معاشرتی حالات کا عکاس ہونا ضروری ہے۔ملک میں رقصِ ابلیس جاری ہو اورشاعری باغ میں جھولے ڈال کر عیش وآرام کے نغمے الاپ رہی ہو تو اس کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے ۔ایسی صورت حال میں انورجمال صاحب کے شعری کلیات میںہماری موجودہ بوقلموں صورت حال کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ انورجمال شاعر،نثرنگار اور مصور ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ درس وتدریس کے مقدس عمل میں گزرا ہے۔وہ زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کے مشاہدہ بیں ہیں۔انور جمال کی شاعری میںاس انسان کی نفسیاتی کیفیت ہے جو کائنات کی تسخیر کے بعدجب اپنی ذات کی شکست کی طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی بے بضاعتی کا یقین ہوجاتا ہے، ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے عالمی شہری ہیں۔ایسا ہونے کے باوصف کسی حدتک شعور سے بہرہ مند بھی ہوگئے ہیں ،لیکن ہمارا حکمران طبقہ ابھی تک کسی اورزمانے میں جی رہاہے،اس صورت حال میں ایک عام آدمی سوچنے پرمجبور ہوگیا ہے کہ وہ کہاں سے چلا تھا اور کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔انورجمال کے ہاںاسی غم واندوہ کے چند شعری نمونے دیکھیں :
بہتر تھا کہ ہم صاحب ِ دستار نہ ہوتے
رسوا تو کم ازکم سرِ بازار نہ ہوتے
جھک کے مل خاک نشینوں سے کہ ان لوگوں نے
ٹھوکریں کھا کے تجھے شوکتِ دارائی دی
گھرجل رہے تھے شہرمیں کوئی صدا نہ تھی
سب جاگتے تھے پھربھی کوئی جاگتا نہ تھا
ہمارے ہاں تاریخ کا بہاﺅ فیصلہ کرتا ہے کہ سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا۔اگر شعروسخن کے تناظرمیںہماری سیاسی اور معاشرتی تاریخ لکھی جائے تو بڑے انکشافات ہوں گے۔مثال کے طور پر یہاں محمدتقی میر ایک اور شعر دیکھیے:
رئیس زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے انھی کی دولت سے
بیچارے شہنشاہ غزل نے تو اٹھارویں صدی کی زبوں حالی کا رونا رویا تھا،ذرا اکیسویں صدی کے متاثرین بھی موجودہ دور کے آئینے میں اس کی شعری تفہیم کرکے دیکھیں۔ارتکاز ِ دولت نے کیاکیا گُل کھلائے ہیں،یہ رئیس زادے کون ہیں ،جوسیاست ،مذہب اور کاروبار سمیت زندگی کے ہرشعبے میں مو روثیت کے علم بردار ہیں۔ہمارے زمانے میں جس شاعر کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہوگا وہی کامیاب ہے۔انورجمال کی شاعری بھی اس خیر کا تسلسل ہے کہ ہمارے معاشرے کی واضح اوردھندلی تصویریں دکھاتی ہے۔یہاں ”مکمل نامکمل “میں سے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
اے قاسم اشیا ! تری تقسیم عجب ہے
دستار انھیں دی ہے جوسر ہی نہیں رکھتے   
اس نے بنالیے ہیں محلات کس طرح
آ، میرے گھرکی بے سروسامانیوں سے پوچھ
جیب میں رکھنے لگے اپنے نسب نامے لوگ
جانے کب کون شرافت کی نشانی مانگے
الاﺅ ہیں جوسینوں میںانھیں ہونٹوں تک آنے دو
بغاوت روک دینے سے بغاوت اورہوتی ہے
اس تیر میں خوشبو ہے مرے اپنے بدن کی
کس شخص نے پھینکا ہے یہ معلوم کیا جائے
غمِ روزگار،غم ِہستی، غم ِدنیا،( یا چلیںغمِ عاشقی) اور نہ جانے کیا کیا، ہمارے عہد میں غم کی بہت سی صورتیں ہیں، انورجمال کی شاعری میں غم کی ان تمام صورتوں کا مہذب اظہارملتا ہے۔یہ شاعری روزمرہ زندگی کے حالات وواقعات کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کرتی ہے۔اس میں عام آدمی کے لہجے کا غصہ اور جھنجھلاہٹ نہیں بلکہ ایک خاص وضع کا اسلوب ہے جوہمیں ذرا توانا لہجے میں فیض احمد فیض کے ہاں بھی دیکھنے کو ملتاہے۔قوموں کی زندگیوں میں اچھے برے مراحل آتے ہیں اوروہ ان میں سے بہ آسانی گزر بھی جاتی ہیں۔کاش ہمارے اجتماعی قومی موقف میں ہمہ گیری اوراتفاق پیدا ہوجائے اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کچھ اچھی روایات تحفے میں دے جائیں، دوسری صورت میں تاریخ کا حشر نوشتہ¿ دیوار ہے۔ہماری مرضی ہے کہ اس سے کچھ سیکھ لیں یا آگے بڑھ جائیں۔ 

مزیدخبریں