زہد و تقویٰ، صبر و استغناء کے پیکر قاری فضل الٰہیؒ

مولانا حافظ مجیب الرحمن انقلابی
میرے والد گرامی جامعہ اشرفیہ لاہور کے شعبہ تجوید وقرأت کے سابق سینئر استاد اور ملک کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا قاری فضل الہٰی زہد و تقویٰ، صبر واستغناء  اور علم و عمل کے پیکر تھے۔ آپ  برصغیر پاک و ہند کے نامور قاری جن کے ذریعہ پاکستان میں تجوید و قرات کو فروغ ملا حضرت مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی کے شاگرد خاص ، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے مرید اور حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری  کی مجالس میں بھی شریک رہتے جہاں آپ نے کئی مرتبہ امیر شریعت سید عطا ء  اللہ شاہ بخاری کی زیارت اور مصافحہ کی سعادت حاصل کی آپ نے تقریبًا 60 سال تک قرآن مجید کی خدمت کی اور تجوید و قرآت کو فروغ دینے میں شب و روز مصروف رہے ، آپ نے جامع مسجد خضریٰ سمن آباد اور پھر جامع مسجد عکس جمیل مین مارکیٹ سمن ا?باد میںامام و نائب خطیب اور بطور مدرس کے40 سال خدمات سرانجام دیں ۔تقریبًا 13 سال کی عمر میں  رمضان المبارک کے مہینہ میں سیالکوٹ میں نمازا ور تراویح پڑھتے ہوئے اللہ نے آپ کے دل میں بھی خیال ڈالا کہ اگرایک نابینا حافظ قران کو اللہ تعالیٰ اس قرآن کی بدولت اتنی عزت دے سکتے ہیں تو  آنکھوں کی نعمت  کے ساتھ کیوں نہ میں بھی حافظ قرآن بن جاؤں۔والد مرحوم  غلام حید ر  نے اس  اصرار کو دیکھتے ہوئے گھر پر قرآن مجید پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب کا انتظام کر دیا۔لیکن آپ واپس مدرسہ شہابیہ سیالکوٹ میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے  جاپہنچے۔پھر آپ کو معلوم ہوا کہ لاہور میں مدرسہ دارالقرآن و الترتیل لٹن روڈ لاہور میں ایک بہت بڑے قاری مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی قرآن مجید پڑھاتے ہیں۔آپ اسی شوق میں لاہور پہنچے اور وہاں پر مولانا قاری سید علی مرحوم( مزنگ والے ) کو اپنے حالات اور شوق سے آگاہ کیا۔ پھرمولانا قاری عبدالمالک لکھنوی  جب یہاں سے  مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ پرانی انارکلی لاہورمنتقل ہوئے تو آپ بھی ان کے ساتھ بطور شاگرد اور خادم کے وہاں منتقل ہوگئے یہاں پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ ، مولانا قاری حسن شاہ ، حضرت مولانا قاری اظہار احمد تھانوی ، مولانا قاری نور محمد اور دیگر نامور قراء  اور شخصیات کے ہم سبق ہونے کا آپ کو اعزاز حاصل ہوا۔۔۔ اس کے بعد مزید دینی تعلیم کے لیے مولانا قاری عبدالمالک لکھنوی نے آپ کو جامعہ عثمانیہ گول چوک اوکاڑہ میںعلامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد خاص، فاضل دیوبند اور اس وقت کے نامور عالم دین حضرت مولانا عبدالحنان ہزاروی  کے پاس مزید تعلیم کے لیے بھیج دیا ۔ حضرت والد محترم قاری فضل الہٰی  جامعہ عثمانیہ میں تقریبًا 19 سال کی عمر میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھانا بھی شروع کر دیا۔اس دوران دیپالپور کی مشہور قاضی فیملی میں قاضی فیض احمد مرحوم کے صاحبزادی سے آپ کی شادی ہوئی، آپ نے کچھ عرصہ دیپالپور کے مین بازار میں موجود ہسپتال(جو کہ اب کالج بن چکا ہے) کی مسجد میں بطور امام و خطیب اور مدرس کی خدمات بھی سرانجام دیں اور پھر بعد میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے موجودہ مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ کی خواہش پر  جامعہ اشرفیہ لاہور میں شعبہ تجوید و قرات میں بطور مدرس پڑھانے لگے۔بعد میںجامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی، مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ اور پروفیسر ڈاکٹر منیر الحق کی خواہش  پر خضریٰ مسجد سمن آباد سے مرکزی جامع مسجد عکس جمیل چوک مین مارکیٹ سمن آباد لاہور میں بطور امام و نائب خطیب اور دینی کتابوں کے مدرس کے منتقل ہو گئے جہاں وفات تک تقریبا 40سال کا عرصہ گذار دیا۔
آخر وقت تک کہیں آنے جانے کے لیے ہمیشہ آپ نے سائیکل ہی بطور سواری  استعمال کی اور وہ بھی وفات سے چند روز قبل کسی طالب علم کو ہدیہ کر دی۔ آخر عمر میں تقریبًا 7 سال شوگر، بلڈ پریشراور گردوں کے عارضہ کی وجہ سے ڈائلسز کے تکلیف دہ مراحل سے بھی بڑے صبر واستقامت کے ساتھ گذرے۔ اور ہمیشہ اپنی اولاد اور مسجد کی انتظامیہ سے اسی خواہش کا اظہار کیا کہ میرا جنازہ اسی مسجد سے اٹھے۔۔۔۔وفات سے چند گھنٹے قبل جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ بھی ان کی عیادت اور ملاقات کے لیے ہسپتال تشریف لائے تو دونوں ہم سبق اور ہم عصر  بہت خوش ہوئے ۔آخر وقت  والد مرحوم نے بغیر کسی تمہیدکے اچانک میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے مخاطب کر کے انتہائی پر اعتماد انداز میں فرمایا میرا جنازہ جامعہ اشرفیہ لاہور یا جامع مسجد عکس جمیل مین مارکیٹ سمن آباد میں باہمی مشورہ سے پڑھانا۔گمان نہ تھا میرے والد گرامی چند گھنٹوں کے مہمان ہیں اور پھر رات کو خدمت پرمامورہم سب کو آرام کیلئے کہا۔22فروری2019ء جمعۃالمبارک کے دن صبح تہجد کے وقت ذکر اور کچھ معمولات میں مصروف ہوگئے اور پھر اچانک ایک ہچکی کیساتھ روح پرواز کر گئی ۔آپ کی  نماز جنازہ میںجامعہ اشرفیہ لاہور کے اساتذہ ، علماء کرام اور عزیز و اقارب سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی آپ کے جسد خاکی کو قبرستان شیرشاہ اچھرہ لاہور میں سپرد خاک کیا گیا ۔ اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء  فرمائے۔ امین 

ای پیپر دی نیشن