’’پاپا‘‘ ناجی صاحب

غلطی سے انہیں گفتگو کی روانی میں ’’ناجی صاحب‘‘ پکارتا تو خفا ہوجاتے۔ میز پر ہاتھ پٹختے ہوئے بلند آواز سے یاد دلاتے کہ ’’میں تمہارا پاپا ہوں‘‘ اور پاپا اب دنیا میں نہیں رہے۔ ان سے پہلی ملاقات آج بھی دل ودماغ پر نقش ہے۔1970ء کے ابتدائی ایام تھے۔ وہ ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کے مدیر تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہورکے دو دوستوں کے ساتھ میں اس ہفت روزے کے دفتر ان سے ملاقات کے لئے گیا تھا۔ ہم وہاں ایسے ہی انداز میں گئے تھے جیسے کسی مشہور فن کار یا گلوکار کی جھلک کو ترستے نوجوان پرستار جاتے ہیں۔اپنے کام میں بے حد مصروف ناجی صاحب نے مگر بہت شفقت سے ہمارے نام پوچھے۔ یہ جاننے کے بعد مزید حیران ہوگئے کہ ہم گورنمنٹ کالج کے طالب علم ہیں۔ان کا خیال تھا کہ مذکورہ ادارے کے طالب علم اردو صحافت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ انگریزی ادب ہی کو سراہتے ہیں۔ میں نے انہیں منٹو وغیرہ کے حوالے دے کر مزید حیران کردیا۔ ’’تمہاری کسی تحریر کا انتظار رہے گا‘‘یہ کہتے ہوئے انہوں نے مصافحہ کو ہاتھ بڑھایا جو اس امر کا اشارہ بھی تھا کہ ہم ان کا کافی وقت لے چکے ہیں۔ اب وقت رخصت ہے۔
مذکورہ ملاقات کے تقریباََ تین ماہ بعد حلقہ ارباب ذوق کا وائی ایم سی اے لاہور میں اجلاس ختم ہوا تو پاک ٹی ہائوس کی جانب حبیب جالب کے ہمراہ بڑھتے ہوئے ان کی نگاہ مجھ پر پڑگئی۔ ’’لکھنے کا وعدہ کرکے بھول گئے ہو‘‘کہتے ہوئے انہوں نے اپنی یادداشت سے مجھے حیران کردیا۔ جالب صاحب نے مجھے ’’ناکارہ مگردل کا اچھا‘‘بتاتے ہوئے جان بچائی اور ہم پاک ٹی ہائوس میں ایک طویل محفل کے لئے بیٹھ گئے۔
جن دنوں کا ذکر ہے وہ لاہور میں نظریاتی تفریق کے ہیجانی ایام تھے۔ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کے ساتھ پیپلز پارٹی عوامی حلقوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اس کے سوشلزم کو ’’کفر‘‘ قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی کی قیادت میں دایاں بازو ایک طویل جنگ کی صف بندی میں مصروف تھا۔ سیاست سے زیادہ مگر مجھے لکھنے کی خواہش لاحق ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈرامے کے ہنر کو بھی گرفت میں لانا چاہ رہا تھا۔ ان شعبوں میں قسمت آزمائی کرتے 1975ء میں اسلام آباد آگیا۔ ناجی صاحب سے ملاقاتیں بھی ختم ہوگئیں۔
پھر ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ایک روز نذیر ناجی صاحب نے مجھے ڈھونڈا اور ملاقات کو طلب کیا۔ راولپنڈی کی مری روڈ پر کمیٹی چوک کے قریب ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ وہ روزنامہ ’’حیات‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنا چاہ رہے تھے۔اس کے ذریعے ضیا کے مارشل لاء کی مزاحمت مقصود تھی۔ مجھے معاونت کا حکم ہوا تو انکار نہ کرپایا۔ دو روز بعد ہی مگر ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کے ذریعے انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنے کا اعلان کردیا جب تک ان کی بدولت’’مثبت نتائج‘‘ برآمد نہیں ہوتے۔ اسی روز راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے مکھی مار مہم کا اعلان بھی کردیا۔ ناجی صاحب نے انتخاب موخر کئے جانے کی خبر کو نظرانداز کرتے ہوئے اس پریس ریلیز پر مبنی خبر کو لیڈ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ’’مکھیاں مارو‘‘ صبح چھپے ا خبار کی چیختی چلاتی سرخی تھی۔ اس کے بعد اخبار کا وجود برقرار رکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ناجی صاحب لاہور چلے گئے۔وہاں کئی برسوں تک بے روزگار رہے۔بسااوقات گزارے کے لئے دوستوں سے قرض مانگنے کو بھی مجبور ہوجاتے۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران نذیر ناجی صاحب کی طویل عرصے تک بے روزگاری دیکھتے ہوئے میں گھبرا گیا۔ کئی بار سوچا کہ ان کے ’’حشر‘‘ سے سبق حاصل کروں۔ ان کی صورت ایک ایسا صحافی بے روزگار اور مفلوک الحالی کا شکار تھا جو عین جوانی میں کم از کم تین ہفت روزوں کے بانی مدیروں میں شامل تھا۔ جو ہفت روزے انہوں نے متعارف کروائے وہ جدت طرازی کی نصابی مثالیں تھے اور عوام میں بے تحاشہ مقبول بھی۔ سٹالوں پر آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔ ناجی صاحب کی بے روزگاری نے مجھے سمجھایا کہ صحافت شہرت تو دے سکتی ہے لیکن مالی استحکام نہیں۔ان سے ملنے کے بعد اکثر یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا کہ کسی اورد ھندے سے رجوع کیا جائے۔
ناجی صاحب نے مگر ہمت کبھی نہیں ہاری۔ جس ادارے کے ایک مشہور ہفت روزے کے وہ مدیر رہے تھے اس کے ہفتہ وار ایڈیشن میں اہم لوگوں کے انٹرویوز کے ذریعے ’’دیہاڑی‘‘ لگانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں ایک روز پاکستان میں مقیم امریکی سفیر سے انٹرویو کے لئے اسلام آباد آئے۔ مجھے حکم دیا کہ انہوں نے اردو میں جو سوالات مرتب کئے ہیں انہیں انگریزی میں لکھوں۔ انہیں انگریزی میں ڈھال کر سفارت خانے بھجوادیا گیا۔ امریکی سفیر سے انٹرویو کا وقت طے ہوگیا تو اپنے ہمراہ لے گئے۔راستے بھر مصر رہے کہ سفیر سے گفتگو فقط میں ہی کروں گا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ انٹرویو کے ٹرانسکرپٹ کا اردو ترجمہ بھی کردیا۔ حیرت مگر اس وقت ہوئی جب نذیر ناجی جیسے قدآور صحافی نے وہ انٹرویو چھاپتے ہوئے ابتدائی پیرے میں کھل کر اعتراف کیا کہ وہ انگریزی زبان سے آشنا نہیں۔ جو انٹرویو چھاپ رہے ہیں درحقیقت ’’میرے برخوردار صحافی نصرت جاوید نے بہت محنت سے تیار کیا ہے‘‘۔ طویل بے روزگاری کے بعد ملی نوکری کے ابتدائی دنوں میں یہ فقرہ لکھنا ان کی بڑائی کا میری دانست میں پریشان کن اظہار تھا۔ چند دنوں بعد لاہور میں ملاقات ہوگئی۔ شکوہ کیا تو انہوں نے ’’شٹ اپ‘‘ کہتے ہوئے مجھے خاموش کردیا۔ ضیاء الحق کے ہوتے ہوئے ناجی صاحب کی نوکری برقرار رہنا ویسے بھی ممکن ہی نہیں تھا۔ بالآخر اس ادارے سے بھی فارغ ہوگئے۔
ناجی صاحب کی صحافتی زندگی میں لیکن ایک اور ’’بہار‘‘ بالآخر اس وقت آگئی جب مجید نظامی صاحب نے نوائے وقت کے صفحہ نمبر2 پر عین اس جگہ جہاں ان دنوں یہ کالم چھپتا ہے ’’سویرے سویرے‘‘ کالم کو چھاپنا شروع کیا۔ بعد ازاں یہ کالم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت پر طنزیہ یلغار کی بھرپور علامت بن گیا۔اس کالم ہی نے بے نظیر مخالفین کو نواز شریف کے گرد جمع ہوکر انہیں محترمہ کے متبادل کے طورپر ابھارنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔میں تنہائی میں بیٹھ کر انہیں ’’ترقی پسند‘‘ ہوتے ہوئے بھی نواز شریف کو ’’ہم پر مسلط کرنے کا ذمہ دار‘‘ ٹھہراتا تو شفقت سے مسکراتے اور بالآخر اپنے ’’پاپا‘‘ ہونے کا فائدہ اٹھاکر شٹ اپ کہتے ہوئے خاموش کروادیتے۔
نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے دوران وہ ان کے قریب ترین معاونین میں شامل تھے۔میں ان دنوں اپنے انگریزی کالموں کے ذریعے نواز حکومت کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھتا۔ مجھے لیکن ایک بار بھی جی ہاں ایک بار بھی کبھی ناجی صاحب نے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی صاف الفاظ میں آگاہ رکھا کہ وہ میرے ’’پاپا‘‘ ہیں اور مجھے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر اگر اسلام آباد میں ہوں تو ملے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ نواز حکومت کے کرتا دھرتا افراد کو ان کے ذریعے مجھے ’’راہ راست‘‘ پر لانے کی جرأت کبھی نہیں ہوئی۔ 
ناجی صاحب کی زندگی حیران کن اتارچڑھائو سے بھرپوررہی۔ بھٹو صاحب کے بعد وہ نواز شریف کے بھی بہت قریب رہے۔ مارشل لاء  دور خاص کر ضیاء دور میں غربت وبے روزگاری کے جاں گسل ایام کا سامنا بھی کیا۔ ایک لمحے کوبھی لیکن میں نے کبھی ناجی صاحب کو ہمت ہارتے اور زندگی سے مایوس ہوتے نہیں دیکھا۔ بدترین ایام میں بھی اچانک اپنے دائیں ہاتھ کو میرے سامنے رکھ کر کہتے کہ اس کے اوپر خوش حالی ہی خوش حالی لکھی ہے۔ ’’پاپا کی پریشانیوں سے گھبرایا نہ کرو۔‘‘ان کے جانے کے بعد امید کی آخری علامت بھی مجھ سے چھن گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن