حیرت ہے کہ محترم حقانی صاحب نے قائداعظم کیساتھ علامہ اقبال کو بھی رگیدنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن یہ ایک ایسا موقف ہے جسے تاریخ سے مذاق ہی تصور کیا جائیگا کیونکہ اگر علامہ اقبال اور قائداعظم 1946 کے برطانوی کابینہ مشن پلان سے بہت پہلے ہی مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے تو مطالبہ پاکستان کی پہلی مکمل عملی شکل تو 23 مارچ 1940 کے لاہور ریزولوشن میں سامنے آئی تھی جسے تاریخ میں قراردادِ پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جبکہ علامہ اقبال تو اِس قرارداد کے منظر عام پر آنے سے دو برس قبل ہی 21 اپریل 1938 میں وفات پا چکے تھے تو بانیانِ پاکستان مطالبہ پاکستان سے کب اور کیسے دستبردار ہوئے ؟ اِس سوال کا جواب تو محترم حقانی صاحب ہی دے سکتے ہیں لیکن میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اغیار کی جانب سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اندر اور باہر سے دڑاریں ڈالنے کیلئے کی جانیوالی منصوبہ بندی تو سمجھ میں آتی ہے۔ اِس منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے کی بے پایاں بیرونی خواہشات جن کا اظہار نہ صرف وقتاً فوقتاً انتہا پسند صیہونی فکر و نظر رکھنے والے چند پاکستان مخالف مغربی تھنک ٹینکس کی تحریروں میں نمایاں نظر آتا ہے بلکہ پاکستان کی سلامتی کا دشمن جو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے پاکستان کو پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم کر چکا ہے ، کے ریاستی اور غیر ریاستی دانشوروں کی جانب سے تسلسل کیساتھ یک زبان ہو کر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو دیوارِ برلن کی طرح توڑ دینے کی خواہشات بھی چاروں جانب بکھری ہوئی نظر آتی ہیں ، تو اغیار کے اِن ناپاک عزائم کیخلاف گِلہ شکوہ کرنا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔
لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بیرونی ذرائع سے تحریکِ پاکستان اور نظریہء پاکستان کے اصولی موقف کو کمزور کرنے اور تاریخی حقیقتوں کو غلط معنی پہنانے کے تخریبی عمل کیخلاف ایک موثر اور مضبوط نظریاتی دیوار قائم کرنے کے بجائے جب ہمارے اپنے ہی اِس نظریاتی دیوار کو گرانے کے عمل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر شریک ہونے لگتے ہیں تو قومی یکجہتی کے حوالے سے یہ دکھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہو جاتا ہے ۔ اغیار تو ہماری نوجوان نسلوں کو تحریک پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے نظریات سے گمراہ کرنے اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ سوچنے کی بات یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے ہمارے مقتدر کالم نگاروں کو اپنی دانشورانہ کوتاہ فہمیوں اور عاقبت نااندیشانہ نظریات کو مہمیز دئیے جانے کا کیا جواز ہے ؟ لہذا اِس اَمر کو ضرور ذہن نشین کرنا چاہئیے کہ 15 اگست 1947 سے قبل ہندوستان میں برطانوی حکومت ہند کی حکمرانی تھی اور مسلمانان ہند 1857 کی جنگ آزادی سے لیکر 1921 کی تحریک خلافت کی ناکامی تک برطانوی حکومت ہند مسلم قوم کو ہی مورد الزام ٹھہرانے اور مسلمانوں کو سزا دینے کی روش قائم رہی جو بانیانِ پاکستان سے بھی پوشیدہ نہیں تھی لہذا علامہ اقبال اور قائداعظم نے ہندوستان میں موجود ایک بڑی ہندو اکثریت اور برطانوی حکومت ہند کی آئینی ، قانونی اور انتظامی قوت کو محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کے حق خود اختیاری کی تحریک کو مروجہ قانونی پیرا میٹرز کے اندر رکھتے ہوئے مسلمانان ہند کو قومی یکجہتی کی لڑی میں پرویا اور حصول پاکستان کی جمہوری جنگ میں فتح حاصل کی ۔ اگر علامہ اقبال نے ہندوستان کی قانونی موشگافیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کیلئے خصوصاً بّرصغیر ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے کی جسارت guarded words میں کی اور برطانوی قانونی موشگافیوں سے تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے برطانوی صحافیوں سے بھی guarded language میں ہی گفتگو کرتے رہے تو اِس میں مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کہاں سے نکالا جاتا ہے ؟
آئیے ایک نظر کابینہ مشن پلان پر بھی ڈالتے ہیں ۔ جولائی 1945 میں شملہ کانفرنس کے ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت ہند نے ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں کی نمائندہ حیثیت جاننے کیلئے دسمبر 1945 میں مرکزی اسمبلی اور مارچ 1946 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے ۔ مرکز میں مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً نوے فی صد نشستوں پر مسلم لیگی اُمیدوار کامیاب ہوئے لہذا مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت وضاحت سے سامنے آئی لیکن تاج برطانیہ کی حکومت پھر بھی زبردست ہندو اکثریت کی حمایت سے وحدتِ ہندوستان کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رہنے پر ہی مُصر رہی اور اِس مشن کی تکمیل کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے مضبوط ترین تین رکنی وزارتی مشن ہندوستان بھیجا گیا۔ مشن کے تینوں ارکان سٹیفورڈ کرپس، پیتھک لارنس اور اے۔ وی۔ الیگژنڈر، کانگریسی لیڈروں نہرو اور گاندہی سے خصوصی مذاکرات میں مصروف رہے ۔ مہاتما گاندہی نے کابینہ مشن پلان کے سامنے آنے کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کی صدارت سے سبکدوش کرا دیا اور جواہر لال نہرو کو صدارت پر لایا گیا لیکن اِسکے باوجود مولانا آزاد مختلف مواقع پر صوبوں کی گروپ بندی کے حوالے سے خصوصاً سٹیفورڈ کرپس سے گفت و شنید میں مصروف رہے جبکہ کابینہ مشن نے آمد کے بعد ہندوستان میں مبینہ فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے کے پس منظر میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبہ کو رد کر دیا ۔ 16 مئی 1946 کو کابینہ مشن پلان کے تحت اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی وحدت کو قائم رکھا جائے گا لیکن صوبوں کو residuary powers دینے کیساتھ ساتھ خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے سوا تمام محکمے بھی دینے کا اعلان کیا گیا۔ صوبوں کو A, B, C, گروپوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ لارڈ پیتھک لارنس نے 17 مئی کو ایک اہم پریس کافرنس میں کہا کہ اے گروپ کے سوا دیگر صوبے دس سال تک یونین میں رہنے کے بعد اپنی دستوری حیثیت پر نظر ثانی کر سکیں گے یعنی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر خودمختار ملک بن سکیں گے ۔ اے گروپ میں ہندو اکثریتی صوبے شامل تھے ، بی گروپ میںپنجاب ، صوبہ سرحد ، صوبہ سندھ اور برٹش بلوچستان جبکہ سی گروپ میں بنگال اور آسام شامل تھے ۔
حیرت ہے کہ جس دن کابینہ مشن پلان کا اعلان کیا گیا ، اُس دن کانگریس لیڈر شپ بشمول جواہر لال ، ہندوئوں اور سکھوں نے جشن منایا اور ہندو اکثریتی صوبوں میں پاکستان کیخلاف زبردست نعرے بازی کی گئی ۔ قائداعظم جانتے تھے کہ مسلمانان ہند ایک بڑے امتحان سے گذر رہے ہیں جبکہ کابینہ مشن کے اراکین کی بھی متفقہ رائے یہی تھی کہ ہندوستان میں دونوں پُرجوش جماعتوں ہندو کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات ملک کو فرقہ وارانہ جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ قائداعظم کیلئے یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا ۔ اُنہوں نے 6 جون 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام ملک سے مسلم لیگی نمائندوں نے شرکت کی ۔ دو دن تک غور و فکر اور مشاورت کے بعد قائداعظم نے ایک پُرجوش تقریر میں پلان کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا معروضی جائزہ پیش کیا اور مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کیلئے مستقبل کے حوالے سے ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا محسوس کرتے ہوئے کابینہ مشن پلان کے حق میں قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی ۔ (جاری ہے)
مولانا حسرت موہانی اور دیگر چند ممبران نے قرارداد کیخلاف ووٹ دیاجبکہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ۔ قرارداد کی منظوری کو بھی قائداعظم نے ایک جامع شرط کے تابع رکھا جس کیمطابق پلان میں شامل فریقوں ( ہندو کانگریس اور انگریز حکمرانوں ) کی جانب سے منصوبے میں گڑ بڑ کی صورت میں مسلم لیگ اپنی حکمت عملی میں ترمیم و نظر ثانی کر سکتی ہے یا رویہ کو بدل سکے گی ۔ کابینہ مشن نے اے بی سی گروپنگ کے حوالے سے قائداعظم کے نقطہء نظر کی تائید کی لیکن نہرو نے 20جولائی 1946 کو صوبوں کی گروپنگ اور دس برس کے بعد صوبوں کی آزادی کے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ، لہذا قائداعظم نے 25 جولائی 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا اور کابینہ مشن پلان کی منظوری کی درخواست واپس لے لی ۔
حقائق یہی کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کابینہ مشن پلان میں ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا دیکھا تھاجسے جواہر لال نہرو اور ہندو کانگریس برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ نہرو نے دس برس کے بعد و سیع تر پاکستان دینے کے بجائے ایک سال کے اندر ہی سندھ بلوچستان اور صوبہ سرحد کیساتھ ساتھ تقسیم شدہ پنجاب ، بنگال اور آسام دینے پر ہی اکتفا کیا ۔ حقائق یہی ہیں کہ کابینہ مشن پلان کے حوالے سے قائداعظم کی اپنائی ہوئی اسٹریٹجی کام کر گئی اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پاکستان مل گیا ۔
حقیقت یہی ہے کہ محترمہ عائشہ جلال اور چند بھارتی اور مغربی انشوروں نے کابینہ مشن پلان کے حوالے سے نظریہء پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، بلخصوص سقوط ڈھاکہ کے بعد جس انداز میں متحدہ ہندوستان کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ، اُسے میں قابل مذمت ہی سمجھتا ہوں کیونکہ تحریک پاکستان کے آخری دور میں برطانوی حکومت ہند کی جانب سے کبھی متحدہ ہندوستان اور کبھی کابینہ مشن پلان کے حوالے سے ریاستی دبائو استعمال کرنے کے باوجود قائداعظم نے برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے ہی کابینہ مشن پلان کی تائید اِسی لئے کی تھی کہ اِس اسکیم میں بھی دس برس کے بعد ایک وسیع تر پاکستان کی آزادی پنہاں تھی لیکن جواہر لال نہرو نے مستقبل میں کابینہ مشن پلان کے منفی اثرات ہندو اکثریت پر پڑنے کے باعث اِس اسکیم سے پہلو تہی اختیار کی اور تحریک پاکستان کا یہ عارضی باب اپنے منتقی انجام کو پہنچا ۔ اِسی طرح بانیان پاکستان کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے میں چوہدری رحمت علی کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اِسی طرح حصول پاکستان کیلئے تقسیم ہند سے قبل بانیانِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے والی چند دیگر جماعتوں سے منسلک کچھ دانشور بھی قائداعظم کی ذاتِ گرامی کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اِن دانشوروں کی تحقیق کو پاکستان مخالف حلقوں میں تو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے
لیکن اُنہیں اِس اَمر پر ضرور غور و فکر کرنا چاہئیے کہ اُن کی اِس جسارت کے باعث ہماری نئی نسل کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ازلی دشمن نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ابھی تک خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عملدرامد کیلئے تیار ہوا ہے بلکہ بدستور اکھنڈ بھارت کے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔ سول سوسائیٹی میں یہی سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کیا سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے محض مفروضوں اور چند بھارتی و مغربی تھنک ٹینکس کی ڈِس انفارمیشن کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان کی تمام تر well documented جدوجہد پر پانی پھیر کر نئے تاریخی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ جب تک ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محب وطن موجود ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہی ہے کہ مخصوص سیاسی مفادات کے حامل افراد کی جانب سے سقوط ڈھاکہ کے بعد بانیانِ پاکستان کے خلاف نا قا بل فہم نظریات کو ہوا دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر زند ہ و پائندہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لہذا محض جدید تحقیق کے نام پر بانیانِ پاکستان کی بے مثال خدمات کو نہ تو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے مقام کو کم تر کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں میں اپنوں کی توجہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور کانگریس پارٹی کے سابق صدر مرحوم جواہر لال نہرو کے ایک سیاسی تجزیہ پر مبذول کرانا چاہوں گا جسے تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب \\\" تلاشِ ہندوستان \\\" میںجو علامہ اقبال کی وفات کے کافی عرصہ بعد 1944-45 میں احمد آباد قلعہ میں قید کے دوران لکھی گئی ،میں لکھا \\\" مسلمان عوام اور متوسط طبقے کی ذہنیت کی تشکیل واقعات نے کی تھی لیکن موخر الذکر طبقے خصوصاً نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔ ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے ۔ وہ اپنے زمانے کے حالات اور مسلمانوں کے جذبات سے متاثر ہوئے اور خود اُنہوں نے اُن کے جذبات پر اثر ڈالا اور اُنہیں اور شدید تر کر دیا لیکن وہ عوام کی قیادت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک عالم شاعر اور فلسفی تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اہم حصہ لیا تھا لیکن ہندوستان کی اِس قومی تحریک میں ہندوئوں کا غلبہ تھا اور اِس پر اُن کا ہی رنگ چھایا ہوا تھا ، اِس لئے مسلم ذہن میں ایک کشمکش پیدا ہوئی اور بہتوں نے تفریق کا راستہ اختیار کیا جس کی طرف اقبال کے فلسفے اور شاعری نے اُن کی رہنمائی کی تھی \\\" ۔ علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل جواہر لال اقبال کی بیماری پر عیادت کیلئے اقبال سے ملاقات کیلئے آئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب میں کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں \\\" میرے رخصت ہونے سے ذرا دیر پہلے اُنہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میں اور جناح میں کیا چیز مشترک ہے ؟ وہ (جناح) ایک سیاست دان ہیں اور تم (نہرو) ایک محب وطن ! مجھے اُمید ہے کہ مجھ میں اور جناح میں اب بھی بہت کچھ مشترک ہو گا لیکن محب وطن ہونا اب کوئی قابل تعریف چیز نہیں سمجھی جاتی ... ہاں اقبال کا یہ خیال یقینا درست تھا کہ میں کچھ زیادہ سیاست دان نہیں ہوں\\\" ۔ جواہر لال کے تجزیہ کے بعد اِس اَمر کو اچھی طرح جان لینا چاہئیے کہ علامہ اقبال بیماری کے باوجود قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تاریخی خطوط کے ذریعے آخری دم تک مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد میں دامے درمے سخنے شامل رہے۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے دس ماہ قبل 21 جون 1937 میں قائداعظم کے نام جو خط لکھا ، اُس کے مندرجات سے ہی علامہ اقبال کی حصول پاکستان کی تحریک سے دلی وابستگی کی دلیل مل جاتی ہے ۔ اُنہوں نے قائداعظم کو اپنے مکتوب میں لکھا \\\" مسلم صوبہ جات کی علیحدہ فیڈریشن ، واحد ذریعہ ہے ، ہندوستان میں امن و امان کے استحکام کا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ سے بچانے کا ، شمال مغربی اوربنگالی مسلمانوں کو کیوں نہ حقِ استصواب رائے کا مستحق جانا جائے جس طرح ہندوستان کے اندر (ہندوئوں) یا باہر دوسری قوموں کو دئیے جانے کا کہا جاتا ہے\\\" ۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے لاہور میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ آج علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا ہے کیونکہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے وہی کچھ کیا ہے جو وہ چاہتے تھے ۔ تو پھر علامہ اقبال کے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کس کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے نکالا جاتا ہے ؟
اندریں حالات نظریہء پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم اور علامہ اقبال کی ہرزہ سرائی کرنے والے اکابرین سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ بانیان پاکستان کی سیاسی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ا پنی غلطیوں کا احساس کریں اور بانیان پاکستان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کریں۔ مجلس احرار نے قائداعظم کے اصولی موقف کی ہمیشہ ہی مخالفت کی تھی لیکن امیر شریعت سید عطا شاہ بخاری نے پاکستان بننے کے بعد لاہور میں مجلس احرار کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ کر اپنی جماعت کو توڑنے کا اعلان کیا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُن کی غلطی تھی ۔ قائداعظم کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم ایک عہد آفریں شخصیت تھے، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جو پاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا ۔ یقینا قائداعظم کا پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ میں اسٹینلے والپرٹ Stanley Wolpert کے اِن خوبصورت جملوں کیساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہو ں \\\" Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Mohammad Ali Jinnah did all three.\\\" ختم شد
لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بیرونی ذرائع سے تحریکِ پاکستان اور نظریہء پاکستان کے اصولی موقف کو کمزور کرنے اور تاریخی حقیقتوں کو غلط معنی پہنانے کے تخریبی عمل کیخلاف ایک موثر اور مضبوط نظریاتی دیوار قائم کرنے کے بجائے جب ہمارے اپنے ہی اِس نظریاتی دیوار کو گرانے کے عمل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر شریک ہونے لگتے ہیں تو قومی یکجہتی کے حوالے سے یہ دکھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہو جاتا ہے ۔ اغیار تو ہماری نوجوان نسلوں کو تحریک پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے نظریات سے گمراہ کرنے اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ سوچنے کی بات یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے ہمارے مقتدر کالم نگاروں کو اپنی دانشورانہ کوتاہ فہمیوں اور عاقبت نااندیشانہ نظریات کو مہمیز دئیے جانے کا کیا جواز ہے ؟ لہذا اِس اَمر کو ضرور ذہن نشین کرنا چاہئیے کہ 15 اگست 1947 سے قبل ہندوستان میں برطانوی حکومت ہند کی حکمرانی تھی اور مسلمانان ہند 1857 کی جنگ آزادی سے لیکر 1921 کی تحریک خلافت کی ناکامی تک برطانوی حکومت ہند مسلم قوم کو ہی مورد الزام ٹھہرانے اور مسلمانوں کو سزا دینے کی روش قائم رہی جو بانیانِ پاکستان سے بھی پوشیدہ نہیں تھی لہذا علامہ اقبال اور قائداعظم نے ہندوستان میں موجود ایک بڑی ہندو اکثریت اور برطانوی حکومت ہند کی آئینی ، قانونی اور انتظامی قوت کو محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کے حق خود اختیاری کی تحریک کو مروجہ قانونی پیرا میٹرز کے اندر رکھتے ہوئے مسلمانان ہند کو قومی یکجہتی کی لڑی میں پرویا اور حصول پاکستان کی جمہوری جنگ میں فتح حاصل کی ۔ اگر علامہ اقبال نے ہندوستان کی قانونی موشگافیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کیلئے خصوصاً بّرصغیر ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے کی جسارت guarded words میں کی اور برطانوی قانونی موشگافیوں سے تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے برطانوی صحافیوں سے بھی guarded language میں ہی گفتگو کرتے رہے تو اِس میں مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کہاں سے نکالا جاتا ہے ؟
آئیے ایک نظر کابینہ مشن پلان پر بھی ڈالتے ہیں ۔ جولائی 1945 میں شملہ کانفرنس کے ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت ہند نے ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں کی نمائندہ حیثیت جاننے کیلئے دسمبر 1945 میں مرکزی اسمبلی اور مارچ 1946 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے ۔ مرکز میں مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً نوے فی صد نشستوں پر مسلم لیگی اُمیدوار کامیاب ہوئے لہذا مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت وضاحت سے سامنے آئی لیکن تاج برطانیہ کی حکومت پھر بھی زبردست ہندو اکثریت کی حمایت سے وحدتِ ہندوستان کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رہنے پر ہی مُصر رہی اور اِس مشن کی تکمیل کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے مضبوط ترین تین رکنی وزارتی مشن ہندوستان بھیجا گیا۔ مشن کے تینوں ارکان سٹیفورڈ کرپس، پیتھک لارنس اور اے۔ وی۔ الیگژنڈر، کانگریسی لیڈروں نہرو اور گاندہی سے خصوصی مذاکرات میں مصروف رہے ۔ مہاتما گاندہی نے کابینہ مشن پلان کے سامنے آنے کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کی صدارت سے سبکدوش کرا دیا اور جواہر لال نہرو کو صدارت پر لایا گیا لیکن اِسکے باوجود مولانا آزاد مختلف مواقع پر صوبوں کی گروپ بندی کے حوالے سے خصوصاً سٹیفورڈ کرپس سے گفت و شنید میں مصروف رہے جبکہ کابینہ مشن نے آمد کے بعد ہندوستان میں مبینہ فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے کے پس منظر میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبہ کو رد کر دیا ۔ 16 مئی 1946 کو کابینہ مشن پلان کے تحت اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی وحدت کو قائم رکھا جائے گا لیکن صوبوں کو residuary powers دینے کیساتھ ساتھ خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے سوا تمام محکمے بھی دینے کا اعلان کیا گیا۔ صوبوں کو A, B, C, گروپوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ لارڈ پیتھک لارنس نے 17 مئی کو ایک اہم پریس کافرنس میں کہا کہ اے گروپ کے سوا دیگر صوبے دس سال تک یونین میں رہنے کے بعد اپنی دستوری حیثیت پر نظر ثانی کر سکیں گے یعنی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر خودمختار ملک بن سکیں گے ۔ اے گروپ میں ہندو اکثریتی صوبے شامل تھے ، بی گروپ میںپنجاب ، صوبہ سرحد ، صوبہ سندھ اور برٹش بلوچستان جبکہ سی گروپ میں بنگال اور آسام شامل تھے ۔
حیرت ہے کہ جس دن کابینہ مشن پلان کا اعلان کیا گیا ، اُس دن کانگریس لیڈر شپ بشمول جواہر لال ، ہندوئوں اور سکھوں نے جشن منایا اور ہندو اکثریتی صوبوں میں پاکستان کیخلاف زبردست نعرے بازی کی گئی ۔ قائداعظم جانتے تھے کہ مسلمانان ہند ایک بڑے امتحان سے گذر رہے ہیں جبکہ کابینہ مشن کے اراکین کی بھی متفقہ رائے یہی تھی کہ ہندوستان میں دونوں پُرجوش جماعتوں ہندو کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات ملک کو فرقہ وارانہ جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ قائداعظم کیلئے یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا ۔ اُنہوں نے 6 جون 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام ملک سے مسلم لیگی نمائندوں نے شرکت کی ۔ دو دن تک غور و فکر اور مشاورت کے بعد قائداعظم نے ایک پُرجوش تقریر میں پلان کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا معروضی جائزہ پیش کیا اور مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کیلئے مستقبل کے حوالے سے ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا محسوس کرتے ہوئے کابینہ مشن پلان کے حق میں قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی ۔ (جاری ہے)
مولانا حسرت موہانی اور دیگر چند ممبران نے قرارداد کیخلاف ووٹ دیاجبکہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ۔ قرارداد کی منظوری کو بھی قائداعظم نے ایک جامع شرط کے تابع رکھا جس کیمطابق پلان میں شامل فریقوں ( ہندو کانگریس اور انگریز حکمرانوں ) کی جانب سے منصوبے میں گڑ بڑ کی صورت میں مسلم لیگ اپنی حکمت عملی میں ترمیم و نظر ثانی کر سکتی ہے یا رویہ کو بدل سکے گی ۔ کابینہ مشن نے اے بی سی گروپنگ کے حوالے سے قائداعظم کے نقطہء نظر کی تائید کی لیکن نہرو نے 20جولائی 1946 کو صوبوں کی گروپنگ اور دس برس کے بعد صوبوں کی آزادی کے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ، لہذا قائداعظم نے 25 جولائی 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا اور کابینہ مشن پلان کی منظوری کی درخواست واپس لے لی ۔
حقائق یہی کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کابینہ مشن پلان میں ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا دیکھا تھاجسے جواہر لال نہرو اور ہندو کانگریس برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ نہرو نے دس برس کے بعد و سیع تر پاکستان دینے کے بجائے ایک سال کے اندر ہی سندھ بلوچستان اور صوبہ سرحد کیساتھ ساتھ تقسیم شدہ پنجاب ، بنگال اور آسام دینے پر ہی اکتفا کیا ۔ حقائق یہی ہیں کہ کابینہ مشن پلان کے حوالے سے قائداعظم کی اپنائی ہوئی اسٹریٹجی کام کر گئی اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پاکستان مل گیا ۔
حقیقت یہی ہے کہ محترمہ عائشہ جلال اور چند بھارتی اور مغربی انشوروں نے کابینہ مشن پلان کے حوالے سے نظریہء پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، بلخصوص سقوط ڈھاکہ کے بعد جس انداز میں متحدہ ہندوستان کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ، اُسے میں قابل مذمت ہی سمجھتا ہوں کیونکہ تحریک پاکستان کے آخری دور میں برطانوی حکومت ہند کی جانب سے کبھی متحدہ ہندوستان اور کبھی کابینہ مشن پلان کے حوالے سے ریاستی دبائو استعمال کرنے کے باوجود قائداعظم نے برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے ہی کابینہ مشن پلان کی تائید اِسی لئے کی تھی کہ اِس اسکیم میں بھی دس برس کے بعد ایک وسیع تر پاکستان کی آزادی پنہاں تھی لیکن جواہر لال نہرو نے مستقبل میں کابینہ مشن پلان کے منفی اثرات ہندو اکثریت پر پڑنے کے باعث اِس اسکیم سے پہلو تہی اختیار کی اور تحریک پاکستان کا یہ عارضی باب اپنے منتقی انجام کو پہنچا ۔ اِسی طرح بانیان پاکستان کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے میں چوہدری رحمت علی کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اِسی طرح حصول پاکستان کیلئے تقسیم ہند سے قبل بانیانِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے والی چند دیگر جماعتوں سے منسلک کچھ دانشور بھی قائداعظم کی ذاتِ گرامی کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اِن دانشوروں کی تحقیق کو پاکستان مخالف حلقوں میں تو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے
لیکن اُنہیں اِس اَمر پر ضرور غور و فکر کرنا چاہئیے کہ اُن کی اِس جسارت کے باعث ہماری نئی نسل کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ازلی دشمن نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ابھی تک خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عملدرامد کیلئے تیار ہوا ہے بلکہ بدستور اکھنڈ بھارت کے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔ سول سوسائیٹی میں یہی سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کیا سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے محض مفروضوں اور چند بھارتی و مغربی تھنک ٹینکس کی ڈِس انفارمیشن کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان کی تمام تر well documented جدوجہد پر پانی پھیر کر نئے تاریخی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ جب تک ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محب وطن موجود ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہی ہے کہ مخصوص سیاسی مفادات کے حامل افراد کی جانب سے سقوط ڈھاکہ کے بعد بانیانِ پاکستان کے خلاف نا قا بل فہم نظریات کو ہوا دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر زند ہ و پائندہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لہذا محض جدید تحقیق کے نام پر بانیانِ پاکستان کی بے مثال خدمات کو نہ تو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے مقام کو کم تر کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں میں اپنوں کی توجہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور کانگریس پارٹی کے سابق صدر مرحوم جواہر لال نہرو کے ایک سیاسی تجزیہ پر مبذول کرانا چاہوں گا جسے تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب \\\" تلاشِ ہندوستان \\\" میںجو علامہ اقبال کی وفات کے کافی عرصہ بعد 1944-45 میں احمد آباد قلعہ میں قید کے دوران لکھی گئی ،میں لکھا \\\" مسلمان عوام اور متوسط طبقے کی ذہنیت کی تشکیل واقعات نے کی تھی لیکن موخر الذکر طبقے خصوصاً نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔ ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے ۔ وہ اپنے زمانے کے حالات اور مسلمانوں کے جذبات سے متاثر ہوئے اور خود اُنہوں نے اُن کے جذبات پر اثر ڈالا اور اُنہیں اور شدید تر کر دیا لیکن وہ عوام کی قیادت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک عالم شاعر اور فلسفی تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اہم حصہ لیا تھا لیکن ہندوستان کی اِس قومی تحریک میں ہندوئوں کا غلبہ تھا اور اِس پر اُن کا ہی رنگ چھایا ہوا تھا ، اِس لئے مسلم ذہن میں ایک کشمکش پیدا ہوئی اور بہتوں نے تفریق کا راستہ اختیار کیا جس کی طرف اقبال کے فلسفے اور شاعری نے اُن کی رہنمائی کی تھی \\\" ۔ علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل جواہر لال اقبال کی بیماری پر عیادت کیلئے اقبال سے ملاقات کیلئے آئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب میں کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں \\\" میرے رخصت ہونے سے ذرا دیر پہلے اُنہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میں اور جناح میں کیا چیز مشترک ہے ؟ وہ (جناح) ایک سیاست دان ہیں اور تم (نہرو) ایک محب وطن ! مجھے اُمید ہے کہ مجھ میں اور جناح میں اب بھی بہت کچھ مشترک ہو گا لیکن محب وطن ہونا اب کوئی قابل تعریف چیز نہیں سمجھی جاتی ... ہاں اقبال کا یہ خیال یقینا درست تھا کہ میں کچھ زیادہ سیاست دان نہیں ہوں\\\" ۔ جواہر لال کے تجزیہ کے بعد اِس اَمر کو اچھی طرح جان لینا چاہئیے کہ علامہ اقبال بیماری کے باوجود قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تاریخی خطوط کے ذریعے آخری دم تک مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد میں دامے درمے سخنے شامل رہے۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے دس ماہ قبل 21 جون 1937 میں قائداعظم کے نام جو خط لکھا ، اُس کے مندرجات سے ہی علامہ اقبال کی حصول پاکستان کی تحریک سے دلی وابستگی کی دلیل مل جاتی ہے ۔ اُنہوں نے قائداعظم کو اپنے مکتوب میں لکھا \\\" مسلم صوبہ جات کی علیحدہ فیڈریشن ، واحد ذریعہ ہے ، ہندوستان میں امن و امان کے استحکام کا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ سے بچانے کا ، شمال مغربی اوربنگالی مسلمانوں کو کیوں نہ حقِ استصواب رائے کا مستحق جانا جائے جس طرح ہندوستان کے اندر (ہندوئوں) یا باہر دوسری قوموں کو دئیے جانے کا کہا جاتا ہے\\\" ۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے لاہور میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ آج علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا ہے کیونکہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے وہی کچھ کیا ہے جو وہ چاہتے تھے ۔ تو پھر علامہ اقبال کے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کا مفہوم کس کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے نکالا جاتا ہے ؟
اندریں حالات نظریہء پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم اور علامہ اقبال کی ہرزہ سرائی کرنے والے اکابرین سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ بانیان پاکستان کی سیاسی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ا پنی غلطیوں کا احساس کریں اور بانیان پاکستان کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کریں۔ مجلس احرار نے قائداعظم کے اصولی موقف کی ہمیشہ ہی مخالفت کی تھی لیکن امیر شریعت سید عطا شاہ بخاری نے پاکستان بننے کے بعد لاہور میں مجلس احرار کے ایک جلسہ عام میں یہ کہہ کر اپنی جماعت کو توڑنے کا اعلان کیا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُن کی غلطی تھی ۔ قائداعظم کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم ایک عہد آفریں شخصیت تھے، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جو پاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا ۔ یقینا قائداعظم کا پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے ۔ میں اسٹینلے والپرٹ Stanley Wolpert کے اِن خوبصورت جملوں کیساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہو ں \\\" Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Mohammad Ali Jinnah did all three.\\\" ختم شد